گلگت (سمیر حسیب سے) گزشتہ برس نومبر کے اوآخر تک مسرور ولی نے میدانی علاقوں کا رُخ کرنے کے لیے گلگت چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچاتھا۔ حتیٰ کہ دیگر لوگ اپنے خاندانوں کے ہمراہ بلند و بالا پہاڑوں کے مسکن گلگت بلتستان کی شدید ترین سردی سے بچائو کے لیے شہروں کا رُخ کرنے کے لیے اپنا سامان باندھ چکے تھے۔
ہربرس موسمِ سرما کے دوران نومبر سے اپریل تک گلگت بلتستان سردی کی شدید ترین لپیٹ میں آجاتا ہے اور درجۂ حرات تمام وادیوں بشمول گلگت اور سکردو میں منفی 10تک گر جاتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت کے لیے، جو علاقے میں قیام پذیر رہتی ہے، یہ شدید ترین سردی انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے۔ جب سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے اور برف کی چادردھرتی کو اوڑھ لیتی ہے تو جلانے کے لیے استعمال ہونے والی لکڑی وادی بھر میں نایاب ہوجاتی ہے جس کے باعث طلب زیادہ ہوجاتی ہے اور قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ولی کے لیے سرد موسم کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ اپنا علاقہ نہ چھوڑیں یا پھر گلگت میں جلانے کے لیے استعمال ہونے والی لکڑی پر تقریباً 60ہزار روپے خرچ کر دیں۔ انہوں نے یہ رقم اسلام آباد میں خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو گلگت سے پانچ سو کلومیٹر دور ہے اور سردی کی شدت بھی کم ہوتی ہے۔
مقامی سرکاری سکول میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے ولی کہتے ہیں:’’ میں یہ رقم راولپنڈی میں خرچ کروں گا، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یوں تفریح کا ایک موقع مل جاتا ہے اور عزیز و اقارب سے ملاقات بھی ہوجاتی ہے۔‘‘
مقامی آبادی گلگت بلتستان سے جب میدانی علاقوں کا رُخ کرتی ہے توخطے میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑجاتی ہیں اور مقامی بازاروں میں سرمایے کا بہائو کم ہوکر بڑے شہروں کی جانب منتقل ہوجاتا ہے۔ گلگت بلتستان، جو کہ صنعتوں کے نہ ہونے کے باعث معاشی طور پر مستحکم نہیں ہے، کے لیے اس کا مطلب معیشت کا مزید سکڑنا ہے۔
رواں برس موسمِ سرما کے دوران تین بچوں کے والد ولی نے گلگت بلتستان نہیں چھوڑا، وہ کہتے ہیں کہ راولپنڈی میں قیام پذیر ان کے رشتہ داروں نے اصرارکیا کہ وہ موسمِ سرما کے دوران گلگت چھوڑ دیں۔انہوں نے کہا:’’ اگرچہ موسمِ سرما میں زندگی مشکل ہے لیکن میں نے اپنا شہر نہیں چھوڑا۔ اگر آپ نے موسمِ سرماکی شدت سے بچنا ہے تو لکڑیاں جلانا پڑتی ہیں۔ مٹی کا تیل یا قدرتی گیس کا ہیٹر کوئی بہتر متبادل نہیں ہے کیوں کہ یہ خاصا مہنگاہے۔‘‘
موسمِ سرما کے دوران جلانے کے لیے استعمال ہونے والی لکڑیوں کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور رواں برس 40کلوگرام لکڑی 600روپے میں فروخت ہورہی ہے جو گزشتہ برس530روپے میں دستیاب تھی۔ ولی مزید کہتے ہیں:’’ 24گھنٹے گھروں میں حرارت رکھنے کے لیے 30کلوگرام لکڑی استعمال میں آجاتی ہے جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ آپ روزانہ پانچ سو روپے جلارہے ہیں اور ایسا مارچ تک کرنا پڑتا ہے۔‘‘
گلگت بلتستان کے دوسرے بڑے شہر سکردو کے رہائشی فرمان علی کسان ہیں۔ موسم گرما کے مختصر عرصہ کے دوران وہ فصلوں کی کاشت میں اپنے والد کی مدد کرتے ہیں۔ 30برس کے فرمان علی کہتے ہیں:’’ لیکن موسمِ سرما میں شدید ترین سردی کے باعث کھیت بنجر ہوجاتے ہیں اور میں عموماً ملازمت کی تلاش میں لاہور کا رُخ کرتا ہوں۔‘‘ وہ اگلے برس رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
فرمان علی نے مزید کہا کہ انہوں نے گزشتہ برس لاہور کے ایک ہوٹل میں چار ماہ ملازمت کی اور جب گھر واپس لوٹے تو 10ہزار روپے بچانے میں کامیاب رہے لیکن وہ گھریلو ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ہوٹل کی ملازمت نہ صرف انتہائی مشکل ہوتی ہے بلکہ نسبتاً کم تنخواہ میں زیادہ جسمانی توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے۔ گھریلو ملازمت میں ایسا نہیں ہے جوقدرے آسان ہے۔‘‘
سہولیات کی عدم دستیابی ایک اور وجہ ہے جس کے باعث لوگ اور عموماً صاحبِ ثروت طبقہ15لاکھ آبادی کے اس خطے سے میدانی علاقوں کا رُخ کرتا ہے۔جب پہاڑی وادیوں میں قدرتی گیس دستیاب نہیں ہوتی توموسمِ سرماکے دوران مایع پٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ دریائوں میں پانی کی سطح کم ہوتی ہے تو بجلی کی پیداوار پر بھی اثر پڑتا ہے یوں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ ایک دن میں 22گھنٹوں تک جاپہنچتا ہے جس سے نہ صرف معمولاتِ زندگی بلکہ خطے میں کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔
کپکپا دینے والے موسمِ سرما اور بنیادی سہولیات کے نہ ہونے سے قطعٔ نظر مقامی آبادی اور خاص طورپر کاروباری برادری کے دوسرے شہروں کا رُخ کرنے کے باعث معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہوجاتی ہیں، سرمایہ کاری کا حجم کم سکڑ جاتا ہے اور خرید و فروخت میں کمی آتی ہے۔
فرنیچر اور قالینوں کے ہول سیل ڈیلر فضل حسین کہتے ہیں:’’ موسمِ سرما کے دوران کاروبار میں انتہائی گراوٹ آتی ہے اور آپ گاہکوں کے انتظار کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔شہر ویران پڑا ہوتا ہے اور کاروباری سرگرمیوں پر جمود طاری ہوجاتا ہے۔ میں واحد فرد نہیں ہوں جسے ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے بلکہ پوری مارکیٹ میں اسی قسم کا جمود طاری ہے۔‘‘ انہوں نے دیگر دکانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
فضل حسین کہتے ہیں کہ وہ سرکاری محکموں میں پرانا اور نیا فرنیچر سپلائی کرتے ہیں لیکن موسمِ سرما میں طلب کم ہونے کے باعث ان کی فروخت میں 60فی صد تک کمی آجاتی ہے۔
اگرچہ کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان سے ہر برس ہزاروں لوگ گرم علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اس رجحان کا آغاز نومبر سے شروع ہوتا ہے اور مارچ تک جاری رہتا ہے جب تعلیمی ادارے موسمِ سرما کی چھٹیوں کے باعث بند ہوتے ہیں۔
گلگت بلتستان چیمبر آف کامرس کے سابق نائب صدر طارق محمود کہتے ہیں:’’ میں آگاہ ہوں کہ سینکڑوں خاندان ہر سال موسمِ سرما میں راولپنڈی اور دیگر گرم علاقوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ وہ تمام لوگ جو گلگت بلتستان سے گرم علاقوں کا رُخ کرسکتے ہیںتو وہ ایسے کسی بھی امکان سے صرفِ نظر نہیں کرتے۔اندرونِ ملک نقل مکانی کرنے والے کچھ لوگ واپس نہیں آتے اور ملازمت و تعلیم کے بہتر مواقع کے باعث ملک کے بڑے شہروں میںمستقل سکونت اختیار کرلیتے ہیں جب کہ بہت سے صرف موسمِ سرما میں چند ماہ کے لیے جاتے ہیں۔‘‘
طارق محمود کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کے بڑے پیمانے پر گرم علاقوں کا رُخ کرنے کے باعث مقامی آبادی کا کاروبار جمود کا شکار ہوجاتا ہے، معیشت کا پہیہ رُک جاتا ہے جس سے مقامی افراد اور خطے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
انہوں نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ راولپنڈی، کراچی اور لاہور میں ہر برس گلگت بلتستان کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہورہی ہے۔ ان شہروں میں علاقوں کے نام بھی اب گلگت بلتستان کے قصبوں جیسا کہ نگر، ہنزہ اور بلتستان سے منسوب ہوگئے ہیں۔‘‘