راولپنڈی (رحمت محسود سے) پاکستان کے بڑے شہروں میںخواتین کا کار یا جیپ ڈرائیو کرنا حیرت انگیز نہیں ہے لیکن کوئی بھی خاتون اپنی گزر بسر کے لیے سڑکوں پر ٹرک چلاتی ہوئی شاذ و نادر ہی نظر آتی ہے۔
ٹریفک پولیس کے افسر کہتے ہیں کہ 53برس کی شمیم اختر پاکستان کے پدری معاشرے میں اولین خاتون ٹرک ڈرائیور ہیں۔
شمیم اختر نے مرجھائے ہوئے لہجے میں کہا:’’ تقریباً چار برس قبل میرے خاوند نے مجھے چھوڑ دیا اور ایک اور خاتون سے شادی کرلی۔ وہ اب اپنی دوسری بیوی کے ساتھ رہتا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اب میں بھی ملازمت کروں۔‘‘
پاکستان کا تاثر بڑے پیمانے پر ایک پدری اور روایتی معاشرے کا ہے جہاں خواتین کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہیں اور خاص طور پر ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہونے پر تو بہ ظاہر پابندی عاید ہے۔ شمیم کے خاوند نے غالباً اس بنا پر ہی اپنی اہلیہ کی ملازمت کے بارے میں نیوز لینز پاکستان سے کوئی بات نہیں کی۔
شمیم اختر نے زرد لباس اور چادر زیبِ تن کیے ٹرک کا دروازہ کھولا اور اپنے معاون سے ریڈی ایٹر میں پانی کی سطح چیک کرنے کے لیے کہا۔
اس نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اس کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جن کی پرورش کی ساری ذمہ داری اب وہ اٹھارہی ہے۔ اس نے مزید کہا:’’ میں نے پانچ لاکھ روپے ادا کرنے ہیں جو اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے ادھار لیے تھے۔ میرے خاوند نے ایک دوسری خاتون سے شادی کرنے کے بعد کبھی ہمارا خیال نہیں رکھا۔‘‘
ایک دور میں راولپنڈی ( اسلام آباد سے متصل ایک گنجان آباد شہر) کے ایک سلائی سکول میں تدریس کے فرائض انجام دینے والی شمیم نے اپنا پیشہ اس لیے چھوڑا تاکہ ٹرک چلانے کی اپنی دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ رقم کما سکے۔ اس نے فخریہ انداز میں کہا:’’ معاشی مشکلات نے بھی مجھے مجبور کیا کہ میں ایک مہذب پیشہ اختیار کرتے ہوئے اپنی اور اپنے خاندان کی گزربسر ممکن بنائوں تو میں نے ٹرک ڈرائیور بننے کا فیصلہ کیا۔‘‘
اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر ماجد اقبال نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شمیم وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے صرف چار ماہ کے قلیل عرصہ میں ہیوی وہیکل کا لائسنس حاصل کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ہم نے ان (شمیم) کے ساتھ مکمل تعاون کیا تاکہ دیگر عورتیں بھی اس جانب راغب ہوں اور ٹرانسپورٹ کے شعبے سے مردوں کی اجارہ داری ختم ہو۔‘‘
ماجد اقبال نے کہا کہ یہ اَمر ہر پاکستانی کے لیے باعثِ فخر ہے کہ شمیم اختر چوک چوراہوں پہ بھیک مانگنے کی بجائے محنت کرکے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پال رہی ہیں۔
ڈرائیوروں میں اسے شمیم بھائی کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس کے ڈرائیور ساتھی اس کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ بہت عرصہ قبل یہ پیشہ چھوڑ دیتی۔ شمیم اختر کا کہنا تھا:’’ میں اپنے کام سے لطف اندوز ہورہی ہوں۔ میرے بچوں اور خاندان کے ارکان کوبطور روزگار میرے اس انتخاب پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیوں کہ میری آمدن نہ صرف مناسب ہے بلکہ اب میں خودمختار بھی ہوں اور سخت محنت کر رہی ہوں۔‘‘
33برس کے ڈرائیور فلک نیاز کہتے ہیں:’’ وہ نہ صرف جرأت مند ہیں بلکہ ان کی قوتِ برداشت بھی قابلِ تعریف ہے۔ وہ جھلسا دینے والی گرمی اور شدید سردی میں بھی یکساں طور پر اختیاط کے ساتھ ڈرائیونگ کرتی ہیں۔‘‘
فلک نیاز نے کہا:’’ہم میں سے کسی کو بھی ان کے ساتھ کام کرنے میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ وہ سخت محنت کرکے اپنی اور اپنے بچوں کے لیے ایک بہتر زندگی ممکن بنا رہی ہیں۔‘‘
لیکن ایک اور ڈرائیور نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر کہا کہ اس کے بہت سے ساتھی اس تشویش کا شکار ہیں کہ اگر مزید خواتین بھی شمیم اختر کی پیروی کرتے ہوئے اس پیشے کا انتخاب کرتی ہیںتویہ صورتِ حال مرد ڈرائیوروں کے لیے مشکلات کا باعث ثابت ہوگی۔
شمیم اختر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جب پہلی بار ٹرک چلایا تو بہت سے ڈرائیوروں کو یہ ناگوار گزرا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ (ڈرائیور) خوف زدہ تھے کہ اب مزید خواتین ان کی پیروی کرتے ہوئے اس شعبے کا انتخاب کریں گے جس کے باعث مرد ڈرائیوروں کی اجارہ داری کے لیے مشکلات پیداہوں گی۔
انہوں نے مزید کہا:’’ لیکن مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ میں پاکستان کی پہلی خاتون ٹرک ڈرائیور ہونے پر فخر محسوس کرتی ہوںاور خاص طور پر ڈرائیوروں کے لیے کوئی فلاحی کام کرنا چاہتی ہوں تاکہ اگلی نسل مجھے اچھے الفاظ میں یاد رکھے۔‘‘
شمیم کا یہ خیال ہے کہ ایک ٹرک ڈرائیور کو جسمانی طور پر نہ صرف مضبوط اعصاب کا مالک ہونا چاہیے بلکہ وہ حوصہ مند اور پرسکون رہے۔ اس نے مزید کہا کہ اس کے لیے مشکل ترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ کئی کئی دنوں کے لیے بیرونِ شہر جاتی ہے۔ شمیم اختر نے کہا:’’ جب ہم طویل سفر پر روانہ ہوتے ہیں تو راتیں جاگتے ہوئے گزارنا پڑتی ہیں جو میری ملازمت کا مشکل ترین حصہ ہے جب کہ گھر جیسا ماحول مل جائے تو یہ صرف اِک خواب ہے۔‘‘
شمیم نے کہا کہ ہیوی وہیکلز چلانے والے ڈرائیوروں کا کام خاصا مشکل ہے لیکن انتہائی قلیل معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔وہ عموماً اپنے ٹرک پر اینٹیں لاد کر ایک سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہے اور شہر کی حدود میں وہ اس کا معاوضہ ایک ہزار روپے وصول کرتی ہے۔ وہ ایک ماہ میں 25سے 30 مرتبہ یہ ذمہ داری انجام دیتی ہے۔تاہم اگر وہ راولپنڈی سے کراچی کنسائنمنٹ لے کر جاتی ہے جس میں منزلِ مقصود تک پہنچنے میں پانچ روز تک لگ جاتے ہیں یا طویل فاصلے پر کسی اور مقام پر جاتی ہے تو ایک روز کے 15سو روپے وصول کرتی ہے لیکن وہ شاذ و نادر ہی ایسی کوئی پیش کش قبول کرتی ہے۔
اس نے کہاکہ ایک ٹرک ڈرائیور کو ہمہ وقت ڈرائیونگ پر توجہ مرکوز رکھنا ہوتی ہے تاکہ کوئی سنجیدہ نوعیت کا حادثہ پیش نہ آئے۔ شمیم نے مزید کہا:’’ میں اگرچہ تکنیکی طور پر ماہر نہیں ہوں لیکن اگر ٹرک کا ٹائر پنکچر ہوجائے تو اسے تبدیل کرسکتی ہوں۔‘‘
شمیم کے معاون 20برس کے عثمان نے اپنی باس یعنی شمیم کی دل کھول کر تعریف کی۔ اس نے کہا کہ ان کا رویہ اس کے ساتھ انتہائی اچھا ہے اور وہ دوسرے ڈرائیوروں کی طرح اسے ہمہ وقت ڈانٹتی نہیں رہتیں۔
عثمان نے مزید کہا:’’ وہ انتہائی اختیاط کرتی ہیںاور میں ان سے سیکھ کر خوشی محسوس کرتی ہوں۔ وہ کبھی غصے میں نہیں آتیں۔ ‘‘
شمیم کے اکلوتے صاحب زادے حماد نذیر نے کہا کہ جب سے ان کے والد نے ان کو چھوڑا ہے تو ان کی والدہ اس وقت سے ماں کے ساتھ ساتھ باپ کا کردار بھی ادا کر رہی ہیں۔
راولپنڈی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے سیکرٹری اویس منظور تارڑ نے شمیم اختر کی ایک مردانہ پیشے میں اپنا مقام بنانے کے لیے مستقل کوششوں کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا:’’ اس نے ہیوی وہیکل ڈرائیو کرکے ایک جرأت مندانہ قدم اٹھایا ہے۔‘‘
منظور تارڑ نے مزید کہا:’’ شمیم اختر دوسری خواتین کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کریں اور ٹیکسی چلائیں جس سے خواتین مسافر خود کو زیادہ محفوظ اور آرام دہ تصور کریں گی۔‘‘