پاکستان کی انتظامی سروسز… خواتین کے لیے ایک کٹھن راستہ

0
1544

لاہور (دردانہ نجم سے) پنجاب حکومت میں پہلی بار مختلف محکموں میں پانچ خواتین سیکرٹریوں کی تعیناتی عمل میں آئی ہے جس سے صوبے میں متوازن گورننس کی راہ ہموار ہوئی ہے جہاں سے سول سروسز کے لیے سالانہ 50فی صد افسر منتخب ہوتے ہیں۔ حکومت خواتین کو اہم عہدوں پر تعینات کرنے کا کریڈٹ لے رہی ہے جب کہ کچھ اہم عہدوں پر تعینات خواتین حال ہی میںنمایاں ہوئی ہیں جن میں عائشہ ممتاز بھی شامل ہیں جنہوں نے فوڈ انڈسٹری کے خلاف گاہکوں کوناقص خوراک کی فراہمی پر کارروائی کی۔
وہ محکمے جن میں خواتین سیکرٹریوں کوتعینات کیا گیا ہے، ان میں وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ، محکمۂ آرکائیو، گورنر ہائوس، ڈیپارٹمنٹ فار سپیشل ایجوکیشن اور ہائرایجوکیشن کمیشن پنجاب شامل ہیں۔
ناقدین خواتین کو ایسے محکموں کی سربراہی دیئے جانے پر حیران ہیں جنہیں زیادہ سخت خیال نہیں کیا جاتا۔ حامی اسے خواتین اور سماج کی جدوجہد کا عکاس قرار دیتے ہیں جس کے باعث رائے عامہ ایک کمزور صنف کے حق میں ہوگئی ہے۔
 آمنہ امام سیکرٹری وومن ڈویلپمنٹ پنجاب، امبرین رضا سیکرٹری سپیشل ایجوکیشن پنجاب، بشریٰ امام سیکرٹری ہیومن رائٹس اور مائنارٹیز،ارم بخاری، جو پنجاب کی اولین سیکرٹری ہیں،اورڈائریکٹر جنرل انکم سپورٹ پروگرام سارہ سعید یہ یقین رکھتی ہیں کہ خواتین کو اعلیٰ عہدوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے غیر معمولی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
مذکور بالا تمام خواتین سیکرٹریوںنے اس اَمر پر اتفاق کیا کہ یہ ایک حقیقت ہے اگرچہ ان خواتین کا تعلق اثر و رسوخ کے حامل خاندانوں سے ہے اورآئی کیو لیول بھی اس سطح کا ہوتا ہے کہ آسانی سے مقابلے کے امتحانات میں کا میاب ہوجاتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے لیے یہ ہمیشہ مشکل رہا ہے کہ پاکستان کی انتظامی سروسز میں اپنا کیریئر بنائیں اور ترقی کریں۔
ارم بخاری نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو اب بھی دہری محنت کرنا پڑتی ہے اور اپنی صلاحیتوں کو منوانے اور پروفیشنل ازم کا مظاہرہ کرنے کے لیے غیر معمولی کوششیں کرنا پڑتی ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ یہ انتہائی اہم ہے کہ مرد خواتین کو پروفیشن میں اپنا معاصر خیال کریں۔ سماج میں خواتین کو روایتی کرداروں میں پیش کرنے کی سوچ فروغ پاچکی ہے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتیں اور صرف گھریلو کام کرنا ہی ان کے لیے موزوں ہے۔ اس سوچ کو رَد کرنے کے لیے خواتین کو اپنی ملازمت پوری سنجیدگی اور پیشہ ورانہ رویے کے ساتھ کرنا پڑتی ہے۔‘‘
ارم بخاری نے مزید کہا:’’ ان کو اعلیٰ عہدے نہیں دیئے جاتے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں فیصلہ سازی کرنے کی صلاحیت نہیں ہیں‘ یہ اس معاشرے میں فروغ پذیر عمومی رویے ہیں۔ آپ خواہ سول سرونٹ ہیں اور پی اے ایس افسر کے طور پر کام کر رہی ہیں یا پھر کسی سکول میں استانی ہیں‘ آپ کے ساتھ کیا جانے والا برتائو ایک جیسا ہی ہوگا۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ہراساں کیا جانا تو ایک روایت بن چکی ہے جواب ملازمت کا ایک حصہ خیال کیا جانے لگا ہے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے! تاہم، اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ خواتین کے لیے اب پیشہ ورانہ محاذ پر کامیاب ہونے کے امکانات مردوں کی طرح ہی روشن ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کی جانب سے کی جانے والی کوششیں درست سمت میں ہوں اور ان کا مقصد واضح ہونا ضروری ہے‘ وہ پرعز م اورباہمت ہوں۔‘‘
جب محکمۂ ترقی خواتین کی سیکرٹری آمنہ امام سے سوال کیا گیا کہ ایک خاتون مرد سے دگنا محنت کیوں کرے اور اسلام دنیا کے اس خطے میں مردوں کی ذہنیت تبدیل کرنے میں کیوں کر ناکام رہا ہے؟ تو انہوں نے تاریخی تناظر میں جواب دیا۔
آمنہ امام نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم پاکستان میں سماج کی سطح پر عورتوں کے مقام کا تعین کرنے کے لیے سیتا کے گرد تخلیق پانے والے بیانیے کی پیروی کر رہے ہیں ( جو کہ ایک دیوی ہیں) ۔ راون نے سیتا کواس وقت قیدخانے میں ڈال دیا تھا جب انہوں نے اپنے قدم گھر سے باہر نکالے تھے۔ اگرچہ ان کے خاوند رام نے ان کو رہائی دلائی لیکن انہوں نے اس وقت تک سیتا کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جب تک عوامی رائے عامہ تبدیل نہیں ہوگئی جس میں تقریباً 14برس کا عرصہ لگا اور اس دوران سیتا تنہائی میں رہیں۔‘‘
 انہوں نے مزید کہا کہ اس کہانی سے یہ اخلاقی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جب تک سیتا اپنے گھر میں دیور لکشمن کی پناہ میں رہیں تو ان کی پارسائی بے داغ رہی۔ لیکن انہوں نے جیسے ہی گھر سے اپنے قدم باہر نکالے تو وہ غیر محفوظ ہوگئیں۔ جب کوئی خاتون باشعور ہونا چاہتی ہے اور گھر سے باہر نکلتی ہے تو وہ عوامی جاگیر بن جاتی ہے۔ اس فکر نے عورت کو کمزور کیا ہے اور اکثر اوقات وہ مرد کا آسان ہدف بن جاتی ہے جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ عورتیں جرأت مند ہوتی ہیں اور عوامی رائے کے روبرو ہار نہیں مانتیں۔
آمنہ امام نے مزید کہا:’’ ہم حضرت ابراہیمؑ کی زوجہ ہاجرہ کو یاد کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیںجومکہ کے بے آباد اور بنجر شہر میںنومولود بچے کے ساتھ تنہا رہیں۔ انہوں نے نہ صرف پورا ایک شہر بسایا بلکہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کے ذریعے پوری ایک نسل آگے بڑھائی۔‘‘
ان کا کہنا تھا:’’ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ عورتوں کواپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنے کے لیے مختلف محاذوں پر کیوں اس قدر تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان کی انتظامی سروسز سے منسلک خواتین کا معاملہ بھی مختلف نہیں ہے۔ ہم سب کو اسی قسم کے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب تک کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوجاتیں۔  1973ء میںہونے والی اصلاحات کے باعث سول سروسز میںخواتین کے لیے ڈی ایم جی گروپ اور محکمۂ خارجہ میں شمولیت کے دروازے کھلے۔‘‘
عالمگیریت اور عالمی سطح پر صنفی مسائل کے متعلق شروع ہونے والی بحث کے باعث خواتین کو نظرانداز کرنا اورحقوق سے محروم کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ خواتین کے حوالے سے تعصبانہ عہد کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ وقت کا دھارا تبدیل ہوچکا ہے اور خواتین کی مرکزی دھارے کے شعبوں میں شمولیت ایک حقیقت بن چکی ہے جسے آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان سول سروسز اکادمی کے سابق چیف انسٹرکٹر اور وارڈن ڈاکٹر سعید شفقت کے مطابق 1990ء کی دہائی میـں خواتین کے حق میں رجحان مکمل طور پر تبدیل ہونا شروع ہوگیاتھا جب صنفی مساوات اور انسانی حقوق عالمی سطح پر بنیادی مسائل کے طور پر ابھرے تھے اور عمومی طور پر یہ ادراک پایا جاتا تھا کہ ترقی پذیر ملکوں میں خواتین کو یکساں حقوق نہیں دیئے جارہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ سابق صدر مشرف کے دورِ حکومت میں خواتین نے کوٹہ سسٹم کے ذریعے اسمبلیوں اور سول سروسز میں بڑے پیمانے پر نمائندگی حاصل کی۔
ڈاکٹر سعید شفقت نے کہا:’’ فوج جنتا کو یہ مشورہ دیا گیا کہ قانونی جواز حاصل کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ صنفی حساسیت اور مساوات کو مرکزی دھارے میں لے کرآیا جائے۔ جہاں تک خواتین کا تعلق ہے تویہ ایک قدرے بہتر فیصلہ تھا اور ہم نے دیکھا کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد نے سول سروسز میں شمولیت اختیار کی اور سیاست کے میدان پر دستک دی۔ پسماندہ علاقوں کی خواتین بھی اس نئے ماحول میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے قابل ہوئیں۔‘‘
صوبائی سیکرٹری سپیشل ایجوکیشن امبرین رضا نے کہا کہ خواتین کو اب تقریباً ہر شعبہ میں طبع آزمائی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ سب سے دلچسپ پہلو تو یہ ہے کہ خواتین اپنے کیریئر میں آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ خاندان بڑھانے کے حوالے سے بھی تذبذب کا شکار نہیں ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں جب ڈی ایم جی اور فارن سروسز ( اب پی ایس اے کہلاتا ہے) کے دروازے خواتین کے لیے کھلے تو ہم نے دیکھا کہ بہت سی خواتین نے شادی کے بعد ملازمت کو خیرباد کہہ دیا کیوں کہ ان کے لیے ایک ہی وقت میں دومحاذوںپر سرگرم ہونا ایک چیلنج تھا۔‘‘ امبرین رضا نے کہاکہ خواتین کا نئے شعبوں کارُخ کرنے کے باعث اب کام کا ماحول ان کی ضروریات سے ہم آہنگ ہوگیا ہے جس کے باعث بالآخر ان کے لیے معاملات آسان ہوگئے ہیں۔ ایک خاتون کو اب کامیابی حاصل کرنے کے لیے شادی نہ کروانے یا پھر اپنے خاندان کو نظرانداز کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔خواتین کے لیے ایسی ملازمت ، جس سے وہ لطف اندوز ہوسکتی ہوں، انتہائی اہم ہے کیوں کہ انہوں نے بہت کچھ سہاہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ خواتین کے لیے اب بھی سماجی روابط تشکیل دینا مشکل ہے جو کہ ان کے مرد ساتھیوں کے لیے قطعاً مشکل نہیں اور وہ اپنے افسروں اور ذرائع کے ساتھ روابط استوار کرسکتے ہیں۔ خواتین کے پیشہ ورانہ ساتھیوں کی اکثریت چوں کہ مردوں پر مشتمل ہوتی ہے جس کے باعث ان کے لیے غیر رسمی گفتگو کرنا بھی ممکن نہیں رہتا جو کیریئر کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ دفتری اوقات کے بعدخواتین اگر مردوں کے ساتھ بات چیت کریں تو ان کو مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے اور اگر کوئی ایسی جرأت کرتا ہے تو اسے تنقید سہنی پڑتی ہے اور اکثر و بیش تر ساکھ تک دائو پر لگ جاتی ہے۔
سابق چیف سیکرٹری سندھ تسنیم احمد صدیقی کہتی ہیں کہ خواتین نے خود کو ہمیشہ ایک بہترین منتظم ثابت کیا ہے۔ انہوں نے کہا:’’ یہ وہ وجہ ہے جس کے باعث خواتین کو پالیسی سازی کے امور سے دور رکھا جاتا ہے کیوں کہ وہ اپنے مرد ساتھیوں کی نسبت کم کرپٹ ثابت ہوتی ہیں۔‘‘
انہوں نے مزیدکہا:’’ خواتین کو چوں کہ اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنا ہوتا ہے جس کے باعث وہ ایسی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہوتیں جن سے ان کی ساکھ یا پھر کیریئر متاثر ہوتا ہو۔ خواتین کی جانب سے بہترین کارکردگی دکھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاست دانوں کے لیے مرد بیوروکریٹس کی نسبت خواتین افسرو ں سے آسانی کے ساتھ اپنی بات منوانا ممکن نہیں ہوتا۔ 1973ء میں سول سروسز میں ہونے والی اصلاحات کے بعد خواتین نے ایک طویل سفر طے کیا ہے ۔ ان کو اب فیلڈ میں تعینات کیا جاتاہے اور وہ آسانی کے ساتھ اس امتحان میں بھی کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں۔‘‘
بشریٰ امان تسنیم صدیقی کے دلائل سے اتفاق کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ خواتین کی خوش قسمتی ہے کہ ان کو ملازمت کرنے والے مردوں کی طرح دبائو کا سامنا نہیںکرنا پڑتا اور نہ ہی ان سے مختلف طرح کے مطالبات کیے جاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا:’’ خواتین مردوں سے ایک فاصلہ ضرور رکھتی ہیں جو اکثر و بیش تر ان کے لیے غیر مفید ثابت ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی اور انتخاب بھی تو نہیں ہے۔‘‘
ڈائریکٹر جنرل بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پنجاب سارہ سعید نے کہا کہ حکومت اگر خواتین کے لیے ملازمت کے مزید مواقع پید اکرنا چاہتی ہے تو حکومت کو اس کے لیے اپنے ضابطے میں تبدیلی لانی ہوگی۔ انہوں نے بیرون ملک اپنے تجربے کی بنا پر کہا کہ فیلڈ میں تعینات ایک افسر تک سے دوران زچگی چھٹیوں کے دوران گھر پر رہتے ہوئے کام کرنے کے لیے کہا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ملازمت کے لچکداراوقات متعارف کروائیں۔ وہ کہتی ہیں کہ نیدرلینڈزمیں خواتین کودورانِ زچگی چھ ماہ تک کی چھٹیاں دی جاتی ہیں کیوں وہ گھر میں رہتے ہوئے کام کرسکتی ہیں۔ ایک خاتون افسر مخصوص وقت پر فیلڈ کا دورہ یا لوگوں سے ملاقات کرسکتی ہے جب کہ وہ کاغذی امور گھر پر رہتے ہوئے انجام دیتی ہے۔ اس سے کام کے دبائو میں توازن پیدا ہوگا اور بہت سے مردوں ، جوخواتین کی زچگی یا کسی اور طرح کی چھٹیوں کے دوران ان کی جگہ کام کرتے ہیں‘ کی جانب سے محسوس کی جانے والی ذہنی اذیت میں بھی کمی آئے گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here