تھر: توانائی کے وسائل سے بھرپور خطے کے باسی تاریکی میں جیون بیتانے پر مجبور

0
1685

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai

عمر کوٹ (اللہ بخش آریسرسے)ضلع تھرپارکر سے تعلق رکھنے والے 60برس کے محنت کش دوست محمد اس روز کے منتظر ہیں جب وہ رات کے وقت بھی اپنے گائوں میں چہل قدمی کرسکیںلیکن بجلی کی سہولت دستیاب نہ ہونے کے باعث وہ تاریکی میں اپنی اس خواہش کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ گھر پر لالٹین یا موم بتیوں کی روشنی میں راتیں گزارتے ہیں۔
تھرکول بلاک IIکے گائوں تھاریو ہالیپوتو کے رہائشی دوست محمد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم بچپن سے مختلف مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ رات کی تاریکی میں کوئی کام کاج تو کجا چہل قدمی تک نہیں کرسکتے۔ یہ ہمارے لیے بہت مشکل ہے کہ ہم تین سو فٹ گہرے کنوئیں سے پانی نکالیں۔ یہ حالات عہدِ رفتہ کی یاد دلاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اُن کی اس حالتِ زار کی ذمہ دار حکومت ہے۔ 2350دیہاتوں میں سے (1998ء کی مردم شماری کے مطابق) صرف چارفیصد میں بجلی فراہم کی گئی ہے اور یہ تعداد انتہائی قلیل ہے۔ بجلی ایک بنیادی ضرورت ہے اور اس کی عدم موجودگی کے باعث مقامی آبادی کا روزگار، تعلیمی ادارے، ہسپتال ( طبی آلات چلانے کے لیے بجلی درکارہوتی ہے) اور روزمرہ کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔ ان تمام مسائل کا تعلق بجلی کی عدم دستیابی سے ہے جس کے باعث مقامی آبادی میں مایوسی کے جذبات سرایت کر رہے ہیںجس کے باعث وہ خود کو بے بس محسوس کرنے لگے ہیں۔
ایک اورگائوں کے باسی استاد وسایو نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ پہلی بار1980ء کی دہائی میں مٹھی شہر میں بلب روشن ہوا تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہوا کے ہیولے صحرا پر ہمہ وقت چلتے رہتے ہیںجب کہ زمینی کٹائو میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مزیدبرآں جھلسا دینے والی گرمی کی وجہ سے مقامی آبادی مختلف بیماریوں جیسا کہ لولگنے اور پانی کی کمی کا شکار ہورہی ہے۔ مقامی آبادی غربت کے باعث قدرتی وسائل سے توانائی پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ تھرکول کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ ان کی فضا کو آلودہ کرنے اور مقامی آبادی کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کردے گا۔
ضلع تھرپارکر کے ایک گائوں چھاچھڑوکی رہائشی خاتون ہیلتھ ورکر فاطمہ ساند نے کہا:’’ اندھیرے میں زندگی بسر کرنا انتہائی مشکل ہے۔ غروبِ آفتاب کے بعد کچھ دیہاتی لالٹینیں استعمال کرتے ہیں جن سے ان کے گھروں کی فضا آلودہ ہوتی ہے۔ زندگی بچانے والی ادویات کو ٹھنڈی جگہ پر رکھنا، موبائل فونوں اور ابلاغ کے دیگر آلات کی چارجنگ،گھروں سے میلوں دور گہرے کنوئوں اور واٹر پمپ سے پانی نکالنا اور سکولوں میں کمپیوٹر کی تعلیم دینا تھر میں رہنے والی آبادی کی اکثریت کے لیے ہنوز ایک خواب ہے کیوں کہ ان کی تکمیل کے لیے بجلی کی ضرورت ہے جس کی ان علاقوں میں فراہمی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ آزادی کے 68برس گزر جانے کے بعد بھی مقامی لوگوں کے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ ان کے گائوں مقامی گرڈ کے ساتھ منسلک ہوجائیں اور بجلی کی فراہمی کے باعث ان کے لیے جیون بیتانا آسان ہوجائے۔‘‘
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر تاج حیدر، جو ڈویلپمنٹ کے ماہر بھی ہیں، کے مطابق ان علاقوں میں بجلی فراہم کرنے کے لیے نصب گرڈ سٹیشنوں کا نیٹ ورک محدود نوعیت کا ہے۔ دور دراز علاقوں تک رسائی مشکل ہے تو آبادی بھی چھوٹے چھوٹے دیہاتوں کی صورت میں بکھری ہوئی ہے ۔یہ علاقہ پہاڑوں اور صحرائوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے انہوں نے حکومت کو بارہا یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ کسی ایک مقام پر مثالی دیہات بنائے جس کے بعد بنیادی ضروریات فراہم کرنا آسان ہوجائے گا۔
علی اکبر رحیمو ڈویلپمنٹ کے ماہر ہیںـ اور تھر میں رینیوایبل توانائی پر کام کر رہے ہیں‘ وہ کہتے ہیں:’’ یہ خوش قسمتی ہی ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے پہاڑی علاقوں اور پنجاب و سندھ میں تھر اور چولستان کے صحرائوں میں شمسی توانائی کے بیش بہا ذخائرموجود ہیں۔ تھر میں مٹی کے ٹیلے جیوتھرمل توانائی سے بھرپور ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت توانائی پیدا کرنے کے لیے روایتی ذرائع جیسا کہ کوئلے اور تیل پر انحصار کرتی رہی ہے لیکن رینیوایبل توانائی کے وسائل شمسی، سمندری اور ہوا سے توانائی کے حصول کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ صوبہ سندھ میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے لیے کچھ منصوبے شروع کیے گئے ہیں جب کہ شمسی توانائی کا ایک بڑا منصوبہ جناح سول پارک چولستان میں قائم کیا جارہا ہے۔ وفاقی او رصوبائی حکومتوں نے حال ہی میں اس حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات عایدکیے تھے اور صوبائی حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے رینیوایبل توانائی کے منصوبوں پر، وفاقی حکومت کی جانب سے مشکلات پیدا کیے جانے کے باعث ، کام نہیں ہو پارہا۔‘‘
سماجی کارکن گوتم راٹھی کہتے ہیں کہ رینیوایبل توانائی پیدا کرنے کے لیے موزوں قوانین ، پالیسیاں اور معاشی تعاون دستیاب نہیں ہے لیکن اس صورت حال سے قطعٔ نظر کچھ غیر سرکاری تنظیموں کی کوششوں سے اس حوالے سے کچھ پیش رفت ہوئی ہے جو مقامی آبادی کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے سودمند ثابت ہورہی ہے۔
تین سو فٹ گہرے کنوئیں سے پانی نکالنے کے لیے شمسی توانائی کا استعمال کیا جارہا ہے، علاوہ ازیں اس لق و دق صحرا میں گھروں کو روشن کرنے کے لیے سولر پینلوں کا استعمال کیا جانے لگاہے، روایتی دائیاں بچوں کی ڈلیوری کی اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے اس نظام کا استعمال کرنے کے علاوہ موبائل فون چارج کرپاتی ہیں تاکہ ایمبولینس سروس فراہم کرنے والوں سے رابطہ ممکن ہوسکے۔ بچوں کو کمپیوٹر پرتعلیم دی جارہی ہے اور غروبِ آفتاب کے بعد گھر پر مطالعہ کرنا ممکن ہوگیا۔ ہنرمند خواتین کے لیے سورج غروب ہونے کے بعد روایتی دستکاری کرنا ممکن ہوچکاہے۔
 ماہرِ ماحولیات بھرومل عمرانی کے مطابق ترقی یافتہ ملکوں کی ایک بڑی تعداد رینیوایبل توانائی کے مختلف ذرائع کے فروغ پر کام کر رہی ہے کیوں کہ یہ ماحول کے لیے مفید ہے اور اس سے پیدا ہونے والی آلودگی کی شرح بھی نسبتاً کم ہوتی ہے۔ پسماندہ علاقے رینیوایبل توانائی پیدا کرنے کے حوالے سے زرخیز ہیں لیکن کوئی اس جانب توجہ نہیں دے رہا۔ آئی ایف آئیز اور ایم این سیز کی زیادہ دلچسپی تھرکول اور دیگر بڑے منصوبوں پر ہے۔ خام تیل درآمد کیا جارہا ہے اور کوئلے سے چلنے والے توانائی کے پلانٹوں کو فروغ دیا جارہا ہے؛ یہ منصوبے ماحول کے لیے مفید نہیں ہیں جب کہ ان پر لاگت بھی زیادہ آتی ہے اور یہ رینیوایبل بھی نہیں ہیں… یہ بالآخر ایک مدت بعد بند ہوجائیں گے۔
’’گرڈ کے بغیر‘‘ توانائی کی فراہمی کے تصورپر کام کرنا ہوگاجس سے توانائی کی فراہمی کی لائنوں کے خراب ہونے کے باعث ہونے والے بجلی کے نقصان میں بھی کمی آئے گی۔ محدود سطح پر توانائی کے نظام کی تنصیب، اس کی دیکھ بھال اور اسے برقرار رکھنا آسان ہوگا۔
ایک طالب علم دین محمد درس نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک غیر سرکاری تنظیم نے ان کو پنکھے ،کمپیوٹرچلانے اور بلب روشن کرنے کے لیے شمسی توانائی فراہم کی ہے۔ یہ بلب سکول میں سورج کی روشنی سے چارج ہوتے ہیں جو ان کے گھروں کو روشن کرتے ہیں جہاں پر وہ مطالعہ کرتے ہیں اور خواتین اپنادستکاری کا کام کرتی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here