لاہور (دردانہ نجم سے) پنجاب پبلک پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ مختلف وجوہات کے باعث مستقل طو رپر تنقید کی زد پر رہتا ہے جن میں خدمات کی غیر معیاری فراہمی و انفراسٹرکچر، فرسودہ عدالتی نظام، خامیوں سے پُر پراسیکیوشن ایکٹ، ملازمین کا بڑی تعداد میں ملازمت سے الگ ہونا، میرٹ پر بھرتیوں کا نہ ہونا، حل طلب مقدمات کی ایک بڑی تعداد اور سب سے اہم تو یہ ہے کہ حکومت اس محکمے کو قبول کرنے کے لیے سِرے سے آمادہ ہی نظر نہیں آتی۔
ایک سینئر پراسیکیوٹر پنجاب نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر کہا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنماء اپنی نجی محفلوں میں پبلک پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کو طنزیہ طور پر ’’گجرات ڈیپارٹمنٹ‘‘ کانام دیتے ہیں کیوں کہ یہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے 2004ء میںقائم کیا تھاجن کا تعلق گجرات سے ہے۔
ڈسٹرکٹ اینڈسیشن کورٹ لاہور میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر محمد شریف نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے محکمے کے سروس سٹرکچر کے تعین لیے پنجاب حکومت کے خلاف مقدمہ دائرکر رکھا ہے۔ انہوں نے محکمے کے حالات پر تاسف کا اظہا رکرتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوٹرز کے لیے کوئی باقاعدہ دفتر نہیں ہے‘ حتیٰ کہ کرسیاں، میزیں اور ٹیلی فونوںتک کی تعداد بھی ناکافی ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ سیشن کورٹ لاہور میں 40پراسیکیوٹرز کے لیے صرف آٹھ کمرے مختص کیے گئے ہیں۔ پبلک پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کا دفتر ایک دو منزلہ کرایے کی عمارت میں ہے جہاں صرف چند پراسیکیوٹر ہی بیٹھ سکتے ہیں۔ پنجاب کے تقریباً20اضلاع میں کوئی ضلعی پراسیکیوٹر نہیں ہے۔‘‘ بجٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر کی 35نشستیں پُر نہیں ہو پائیں۔ ہائی کورٹ میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کی 25نشستوں اور ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کی نو نشستوں پر بھرتی نہیں کی گئی۔ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ میں مجموعی طور پر نصف نشستیں پُر نہیں کی جاسکیں جس کے باعث پراسیکیوٹرز پر دبائو بڑھ گیاہے۔ محمد شریف کا مزید کہنا تھا کہ ضلع کی سطح پر ڈپٹی ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر کے ذمے اوسطاً دو سو مقدمات ہیں جب کہ روزانہ کی بنیاد پر اس کا 20سے 30پولیس رپورٹوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کو فوجداری تجزیے اور تفتیشی رپورٹس بھی لکھنا ہوتی ہیں۔
پبلک پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری سید علی مرتضیٰ دپٹی ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر (ڈی ڈی پی پی) کی جانب سے بیا ن کی گئی صورتِ حال سے متفق ہیں۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت گجرات، سیالکوٹ، فیصل آباد اور راجن پور میں پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ قائم کرچکی ہے۔
سید علی مرتضیٰ نے تسلیم کیا کہ ڈی ڈی پی پیز کی تنخواہ مناسب نہیں ہے اور وہ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی تنخواہ سیشن جج کے برابرکر دی جائے۔
ایک اور ڈی ڈی پی پی الطاف اسحٰق نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت چھوڑنے کی شرح بہت زیادہ ہے جس کی وجہ تنخواہوں کا نامناسب ہوناہے چناں چہ پراسیکیوٹر سیشن جج کی ملازمت کے حصول کے لیے تگ ودو کرتے ہیں۔ اس رجحان نے محکمے کو شعبۂ قانون کا رُخ کرنے والوں کے لیے ’’ لانچنگ پیڈ‘‘ بنا دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’محکمے میں پروموشن کا کوئی نظام نہیں ہے۔ گزشتہ نو برسوں سے کسی ڈی ڈی پی پی کی پروموشن نہیں ہوئی اور وہ اسی عہدے پر کام کر رہے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں پروموشن کی کوئی امید نظر آتی ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل کی طرح پبلک پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری کا عہدہ بھی سیاسی نوعیت کا ہے۔‘‘ وہ حکومت کی پالیسیوں کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ پراسیکیوٹرز کی مشکلات کا ادراک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ الطاف اسحق نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں بھرتیوں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ جونیئر پراسیکیوٹرز کو اس عہدے کے لیے صرف اس لیے منتخب کیا گیا کیوں کہ ان کے اعلیٰ حکام سے روابط تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسری جانب پولیس تعاون نہیں کرتی جس کے باعث پولیس کی جانب سے ارسال کیے گئے چالانوں میں سے 99فی صد غلطیوں سے پُر ہوتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر جنرل آفس میں راقم کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے الطاف اسحق اور ان کے ساتھیوں نے کہا کہ تفتیشی افسروں کی عمومی طور پر تفتیش کرنے کے طریقۂ کارکے حوالے سے درست طور پر تربیت نہیں ہوتی۔ شواہد جمع کرنے ، محفوظ بنانے اور ارسال کرنے کی صلاحیتوں کے نہ ہونے کے باعث انتہائی اہم معلومات ضائع ہوجاتی ہیں۔ بیش تر اوقات چالان میں قانون کی غلط دفعات شامل کردی جاتی ہیں۔وہ لوگ جن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہوتا‘ ان کو مقدمات میں پھنسانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اور اگر پراسیکیوٹر چالان واپس بھیج دے تو اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔
اس پریشان کن صورتِ حال میں درخواست گزار انصاف کی فراہمی میں تاخیر سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے کیوں اسے ہر سماعت کے لیے ایک نئی تاریخ مل جاتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ وضاحت بھی ہوجاتی ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار کیوں ہے اور مقدمات برسوں تک کیوں کر زیرِالتوا رہتے ہیں؟
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس رانا ایاز سلیم نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر پراسیکیوٹرز اور تفتیشی افسروں کے درمیان بہتر ورکنگ ریلیشن شپ نہیں ہے اورعدالت میں غلط چالان پیش کیے جارہے ہیں تو اس صورت میں کوتاہی کی ذمہ داری صرف پولیس پر عاید نہیں ہوتی۔ پراسیکیوٹرز کو بھی خوداحتسابی کے عمل سے گزرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا:’’ قانونی تناظر میں بات کی جائے تو پراسیکیوٹر کو اس وقت تک چالان عدالت میں پیش نہیں کرنا چاہیے جب تک اس کی قانونی حیثیت کا تعین نہ ہوجائے۔ اگر پراسیکیوٹر پولیس کے دبائو میں آکر ایسا کرتے ہیں تو پھر اللہ ہی ان کا حامی و ناصر ہو۔ پراسیکیوٹرز کو قانونی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ چیزوں کو درست کریں اور اگر وہ ایسا نہیں کر رہے تو اس صورت میں ان کو اس گناہ سے بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘
رانا ایاز اسلم نے کہا کہ پولیس آرڈر 2002ء اور ضابطۂ فوجداری 1898ء میں نقائص کے باعث پولیس کا محکمہ مشکلات کا شکار ہے۔ پولیس آرڈر میں کچھ کہا گیا ہے تو قانون کچھ اور کہتا ہے جس کے باعث بہت سے مواقع پر جرائم کا کھوج لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے بھی اسی طرح شواہد جمع کرنے کی جدید تکنیکوں جیسا کہ جیو فینسنگ وغیرہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کے تحت جرائم پیشہ عناصر کے فون کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے‘ ان وجوہات کے باعث تفتیشی عمل کے لیے سنجیدہ نوعیت کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔
رانا ایاز اسلم کا ضابطۂ فوجداری کے بارے میں بات کرتے ہوئے مزید کہنا تھاکہ ہم اسے یکسر رَد کردیں یا پھر اس میں جدیددور کی واقعاتی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ترمیم کریں۔نئے عدالتی نظام کی عدم موجودگی میں ہم پولیس ، پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ اور عدلیہ میں صرف غلط روایات کو فروغ دیں گے جس کے باعث فوجداری عدالتی نظام غیر مؤثر رہے گا یا صرف اثر و رسوخ کے حامل لوگوں کے حق میں استعمال ہوگا۔
فوجداری عدالتی نظام کی چار سطحیں ہیں اور اگر ایک بھی درست طور پر کام نہ کر رہی ہو تو اس کے باقی تین پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہم اس کا آغاز پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کرتے ہیں جس کے بعد پراسیکیوشن، عدالتیں اور جیلیں شامل ہیں۔
پاکستان کو ورثے میں برطانوی قانونی ڈھانچہ ملاتھا جو نو آبادیاتی عہد کی باقیات میں سے ہے تاکہ اس دھرتی کے باسی بے لچک اور ناقص قانونی ضابطوں کے باعث پسماندہ اور احساسِ کمتری کا شکار رہیں ۔
ایک ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اب یہ صرف ایک مشقت ہی دکھائی دیتی ہے۔ وکلاء تحریک کے آٹھ برسوں کے دوران عدالتی نظام میں رتی برابر بھی بہتری نہیں آئی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ وکلا کے حالات مزید خراب ہوچکے ہیں۔ محکمۂ پراسیکیوشن کو اگر آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جاتا تو یہ تبدیلی کی بنیاد ثابت ہوسکتا تھا لیکن حکومت اور اعلیٰ حکام کی عدم دلچسپی کے باعث ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔‘‘
ان کا کہنا تھا:’’ ایک پراسیکیوٹر مقدمہ کی تشریح کرنے میں جج کی معاونت کرتا ہے۔ موجودہ تناظر میں یہ تعلق افسر اور ماتحت کا روپ دھار چکا ہے۔‘‘
ضابطۂ فوجداری 1898ء اور پنجاب فوجداری پراسیکیوشن سروس ایکٹ 2006ء نے پنجاب میں پراسیکیوشن سروس میں خرابی پیدا کی ہے۔ پراسیکیوشن ایکٹ کی شق 9/7کے تحت پراسیکیوٹر کو عدالت میں زیرِسماعت مقدمہ سے متعلق جائزہ رپورٹ پیش کرنا ہوتی ہے لیکن ضابطۂ فوجداری کے تحت جج اس حوالے سے خاموش ہیں کہ فیصلہ سناتے ہوئے اس سے مدد حاصل کریں یا نہیں جس کے باعث99فی صد ایسا بھی ہوا ہے کہ جج رپورٹ کا جائزہ لینے سے انکار کردیتے ہیں اور صرف چالان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنا دیتے ہیں، بعدازاں مقدمہ نامکمل شواہد کے باعث خارج ہوجاتا ہے یا پھر غوروخوض کے لیے پراسیکیوٹر کو واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
پراسیکیوٹرز کے مطابق ججوں کو براہِ راست ان کی تجاویز سے استفادہ کرنا چاہیے جس کے لیے ضابطۂ فوجداری کی دفعات 190اور 193میں ترامیم کرنے کی ضرورت ہوگی۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کہتے ہیں کہ پراسیکیوٹرز کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی مقدمے کو روک دیں یا اسے خارج کر دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ محکمۂ پراسیکیوشن شق 9/5کے تحت مقدمے کی جانچ کرنے اور تفتیشی افسر کو اس بارے میں تجاویز فراہم کرنے کا پابند ہے۔ تاہم اس کے باوجود مقدمے کی ہر صورت میں سماعت ہوگی ‘ اس سے قطعٔ نظر کہ تفتیش درست طور پر ہوئی تھی یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پراسیکیوٹرز کو ضابطۂ فوجداری کی شق 173 میں ترمیم کرکے یہ اختیار دیا جائے کہ وہ غلط اور جھوٹے مقدمات کی فائل بند کر دیں۔
سیکرٹری محکمۂ پراسیکیوشن سید علی مرتضیٰ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ نظام میں خرابی ہے اور کہا کہ پراسیکیوشن ایکٹ، ضابطۂ فوجداری اور پولیس ایکٹ 2002ء میں ترامیم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی منفی طرزِ عمل ہے کہ قانون پراسیکیوٹرز سے یہ تو امید رکھے کہ وہ تفتیش میں معاونت کریں اور تجاویز دیں جب کہ دوسری جانب عدلیہ پر یہ ذمہ داری عاید نہیں کی گئی کہ وہ پراسیکیوٹرز کے مؤقف سے بھی آگاہی حاصل کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ پراسیکیوٹر بددل ہوجاتے ہیں۔ سید علی مرتضیٰ کے مطابق ایک وقت آئے گا جب پراسیکیوٹرز تجاویز دینا چھوڑ دیں گے یا پھر تفتیش کے متعلق ہونے والی پیش رفت سے آگاہ نہیں کریں گے۔ حکومت پراسیکیوٹرز کے آئینی کردار کی بحالی کے لیے بھی اقدامات کرے۔
سید علی مرتضیٰ نے مزید کہا:’’ میں پراسیکیوٹرز کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتا۔ کیا وہ خاموش رہ کر خود کو عدالت اور پولیس کی ناراضی سے نہیںـ بچائیں گے؟ پراسیکیوٹرز کو آزادی حاصل ہونی چاہیے اور ججوں کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ مقدمہ قابلِ سماعت ہے یا نہیں۔‘‘
Home English News Accountability حکومتی لاپرواہی، صوبائی پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا