حکومت ماحولیاتی تبدیلیوں اور جنگلات کی کٹائی روکنے میں بے بس

0
4790

پشاور ( انعام اللہ سے) ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے جو دنیا کے تقریباً ہر ملک میں وقوع پذیر ہورہی ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ عالمی حدت، موسلا دھار بارشیں، تباہ کن سیلاب اور موسموں میں شدت اس تباہ کن ماحولیاتی تبدیلی کی چند علامتیں ہیں جس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان اپنی بقاء کے لیے ماحول کا تحفظ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
پاکستان میں مجموعی طور پر جنگلات صرف چار فی صد رقبے پر محیط ہیں ‘ یہ شرح بیرونی دنیا کی نسبت تشویش ناک حد تک کم ہے ۔ ماحولیاتی اعتبار سے صحت مندممالک میں اوسطاً35فی صد رقبے پرجنگلات لہلہاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ پاکستان سے اس کا کوئی موازنہ نہیں۔ مزید برآں ملک میں اس قدر کم رقبے پر لہلہاتے جنگلات کے باوجود ان کی کٹائی کی شرح دنیا کے دیگر متعددممالک سے کہیں زیادہ ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں شدید ترین بارشیں ہوئی ہیں جن کے باعث شہر، دیہات اور قصبات سیلاب سے متاثر ہوئے۔ 2010ء کے سیلاب کی تلخ یادیں ان ذہنوں سے محوتو کیا ہوتیں بلکہ اب بھی تازہ ہیں جو اس سیلاب سے متاثر ہوئے یا پھر ملک بھر سے متاثرین کی امداد کے لیے سیلاب زدہ علاقوں میں آئے اور انہوں نے اس تکلیف کا خود مشاہدہ کیا۔
اس نوعیت کی آفات دنیا کے بہت سے ملکوں میں آچکی ہیں جن کی اکثریت نے اس نوعیت کے بحرانوں سے نپٹنے کا حل تلاش کر لیا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں صورتِ حال یکسر مختلف ہے جہاں وفاق اور صوبے میں برسرِاقتدار حکومتیں فعال ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی ذمہ داری قبول کرنے پرتیار ہیں۔ 2010ء کے بدترین سیلاب سے حاصل ہونے والے اسباق کو فراموش کر دیا گیا ہے اور آنے والے برسوں کے دوران نئی اور اذیت ناک یادوں سے بھرپور تاریخ کا ایک اورباب رقم کرنے کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔
صوبہ خیبرپختونخوا کی فلڈ کنٹرول اتھارٹی کے محکمۂ آب پاشی کے ڈائریکٹر ولی خان یوسف زئی کہتے ہیں:’’ماحولیاتی تبدیلیوں اور زمین کے درجۂ حرارت میں اوسطاً اضافے کے باعث کچھ ممالک میں بارشوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب بہت سے ممالک ایسے بھی ہیں جہاں بارشوں کا یہ سلسلہ تھم سا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے وسطی علاقوں میں مون سون کی شرح ہمیشہ نسبتاً کم رہی ہے لیکن گزشتہ تین برسوں کے دوران مون سون کی بارشوں کا سلسلہ ایک تواتر سے جاری ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکومت ان بارشوں اور سیلاب سے کوئی فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں ہے جس کے باعث پانی کو مفید سرگرمیوں کے لیے محفوظ رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی استعمال میں لایا جاسکتا ہے جیسا کہ بجلی کی پیداوار اور آبپاشی وغیرہ ممکن نہیں ہے۔
شیلٹر کیس سٹڈیز پراجیکٹ کی 2013-14ء کی پاکستان سے متعلق جائزہ رپورٹ کے مطابق جولائی 2010ء میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے دو کروڑ افراد متاثر ہوئے اور پاکستان کا 20فی صد رقبہ زیرِ آب آیاجب کہ پانچ لاکھ مکانات کو بھی نقصان پہنچا۔
ستمبر اور اکتوبر 2011ء کے سیلاب کے دوران 89لاکھ افراد متاثر ہوئے اور 15لاکھ مکانات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے۔
ستمبر 2012ء کے سیلاب سے 48لاکھ50ہزار افراد متاثر ہوئے، چھ لاکھ 40ہزارمکان تباہ ہوئے اور ریلیف کیمپوں کو بھی نقصان پہنچا جن میں ایک لاکھ 40ہزار متاثرین عارضی طور پر رہائش پذیر تھے۔ 
2013ء میں آنے والے سیلاب سے 15لاکھ افراد متاثر ہوئے اور 80ہزار مکانات کو نقصان پہنچا۔
ستمبر 2014ء میں ایک بار پھر سیلاب آیا جس سے 25لاکھ افراد متاثر ہوئے اور ایک لاکھ مکانات پر بھی اس آفت کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔
پاکستان اقوامِ متحدہ کے فریم ورک آن کلائمیٹ چینج کنونشن (یو این ایف سی سی) کا دستخط کنندہ ہے۔ گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والے کنونشن کے دوران پاکستان کے وزیراعظم نے کہا تھا کہ دنیا بھر کے ملکوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا جو تقریباً ہر ملک کو متاثر کر رہی ہیں۔
پاکستان نے 2012ء میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے اپنی ایک پالیسی تشکیل دی جس کا مقصد موسم میں آنے والے غیر معمولی بدلاؤ پر قابو پانا تھا۔ اس رپورٹ کے تحت ہر صوبے پر یہ ذمہ داری عاید کی گئی کہ وہ اپنے صوبے میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کا خود ذمہ دار ہے ۔
ولی خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ یہ ضروری ہے کہ ہر صوبہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اپنی ایک پالیسی تشکیل دے۔ پاکستان کے ہر صوبے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا تجزیہ ایک ہی تناظر میں کرنا ممکن نہیں۔ ایک صوبے یا خطے کے لیے موزوں پالیسی ہوسکتا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کے لیے نامناسب ہو۔ ماحولیاتی تبدیلی سماجی و معاشی ترقی کے لیے بھی ایک سنجیدہ چیلنج ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ پشاور میں حکومت مختلف رپورٹوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کو منتظم کرنے کے لیے دی گئی تجاویز پر انحصار کرتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے تلاش کے لیے کوشاں رہی ہے۔ دریائے کابل میں آنے والا سیلاب ہر برس خیبرپختونخوا کے بہت سے علاقوں میں تباہی مچاتا ہے تاہم اب تک ایسے کسی نظام کی تنصیب عمل میں نہیں لائی گئی جس کے ذریعے لوگوں کو سیلاب سے متعلق پیشگی اطلاع مل سکے۔ 
ولی خان یوسف زئی نے مزید کہا:’’ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں جدید راڈار نصب کیے جائیں کیوں کہ صوبہ سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔‘‘
محکمۂ تحفظِ جنگلی حیات خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹر صفدر علی شاہ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے جنگلی حیات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب سے صرف انسان ہی متاثرنہیں ہوتے بلکہ جنگلی حیات اور جنگلات بھی تباہ ہوتے ہیں۔
ضلع سوات میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر پی ایچ ڈی سکالر محمد سلیمان نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے نہ صرف بہت زیادہ مواد دستیاب نہیں ہے بلکہ اس حوالے سے کوئی خاص تحقیق بھی نہیں کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے وقوع پذیر ہونے کا درست جائزہ لگانے کے لیے تاریخی تناظر اہم کردار ادا کرتا ہے‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہم سب ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے برابر کے ذمہ دار ہیں، درختوں ا ور جنگلات کی بے دریغ کٹائی، دریاؤں کے کناروں پر ضرورت سے زائد تعمیرات اور پرندوں کے غیر قانونی شکار وہ عوامل ہیں جو پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بنے ہیں۔
خیبرپختونخوا کی گرین گروتھ مہم کے تحت ایک ارب درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس مہم کے تحت خطے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مثبت سمت کی جانب بڑھنا مقصود ہے۔ تاہم ماہرین یہ یقین رکھتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک مؤثر حکمتِ عملی یہ ہوگی کہ آگاہی مہم کی تشکیل کے لیے منصوبہ سازی کے عمل میں عام لوگوں کوبھی شامل کیا جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here