پشاور (وصال یوسف زئی سے) پاکستان میں خواتین نے کاروبار کے میدان میں غیرمعمولی رفتار سے اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے۔ حتیٰ کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں کام کرنے والی خواتین کے تناسب میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ قبل ازیں صرف مرد گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر کام کیا کرتے تھے لیکن اب خواتین یکساں طور پرتمام شعبوں میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
پاکستان کے ادارۂ شماریات نے 2012-13ء کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی تھی جس میں برسرِروزگار مرد و خواتین کے حوالے سے اعداد و شمار یکجا کیے گئے تھے۔
پاکستان میں 2013ء کے دوران خواتین کی آبادی کی 22.1فی صدشرح روزگار سے وابستہ تھا جب کہ خیبر پختونخوا میں یہ تناسب 13.8فی صد ہوچکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں مختلف شعبوں سے منسلک خواتین کی مجموعی تعداد میں سے20.6فی صد کا اپنا اکاؤنٹ ہے جب کہ تنخواہ دار خواتین میں یہ تناسب 15.5فی صد ہے۔
پاکستان میں خواتین کا سیلز اور مارکیٹنگ کے شعبوں میں ملازمت کرنے کا رجحان بڑھا ہے تاہم خیبرپختونخوا میں یہ پیش رفت خوش آئند ہے۔ اس سے صوبے میں ایک بڑی تبدیلی کا اظہار ہوتا ہے جو خواتین کے حوالے سے اپنی رُجعت پسند فکر کے باعث معروف رہا ہے۔
سونیا بتول گزشتہ دس برسوں سے پشاور میں سیلز گرل کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ابتدا میں ایک مقامی شاپنگ سنٹر میں آٹھ ہزار روپے ماہانہ پر سیلز گرل کے طورپر ملازمت اختیار کی لیکن اب ان کی میک اَپ کے سامان کی اپنی دکان ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ میَں نے اپنا کاروبار صرف 35ہزار روپے کے قلیل سرمایے سے شروع کیا۔ اس وقت میری دکان کا سالانہ ٹرن اوور 10لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ میَں خاندان بھر کی معاشی ضروریات کا خیال رکھ رہی ہوں۔ کام کرنے والی اور خاص طور پر اپنا کاروبار کرنے والی خواتین کو اس سماج میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب یہ تصوراب بھی قابلِ قبول خیال نہیں کیا جاتا کہ ایک عورت ملازمت یا اپنا کام کرنے کے لیے گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھے جب کہ دوسری جانب سکیورٹی کے حالات کے باعث خاندانوں کو یہ بہانہ مل گیا ہے کہ ہم خواتین گھروں کی چار دیواری میں محدود رہیں۔‘‘
55برس کی ممتاز اس حقیقت پر گہرا یقین رکھتی ہیں کہ اگر خاتون کچھ کرنے کے لیے پرعزم ہو تو کوئی رکاوٹ اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ وہ ایک مقامی شاپنگ مال میں 10برس تک سیلز پرسن کے طور پر کام کر تی رہی ہیں جب کہ اس دوران گھر میں نجی گاہکوں کے لیے کپڑوں کی سلائی بھی کرتی رہیں تاکہ ان کی آمدن میں اضافہ ہوسکے۔ ان کے خاوند کینسر کے مریض ہیں اور وہ اپنے خاندان کی واحد کفیل ہیں‘ ان کی اکلوتی بیٹی ہے۔ اب ان کی اپنی ایک دکان ہے جہاں وہ کھلونے اور بچوں کی دیگر اشیا فروخت کرتی ہیں۔
خیبرپختونخوا وومن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی رُکن نسیم ریاض نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوے کہا کہ اس وقت چیمبر کی تقریباً تین سو اراکین ہیں اور ہر ایک کا اپنا کاروبار ہے۔
نسیم ریاض خواتین کوخود جیولری بنانے کا طریقہ سکھاتی ہیں۔ ان کی تین سو سے زائد شاگردوں نے اپنے گھروں میں چھوٹے پیمانے پر یہ کاروبارشروع کردیا ہے۔ اسلام آباد میں قائم ثقافتی ادارے لوک ورثہ نے ان کی ایک طالبہ کی جیولری میکنگ اور ڈیزائن کے شعبہ میں بطورٹرینر خدمات حاصل کی ہیں۔ اگرچہ ان کی اپنی دکان ہے لیکن وہ مختلف ممالک جیسا کہ دبئی، ویت نام اور تھائی لینڈ میں انعقاد پذیر ہونے والی نمائشوں میں بھی شریک ہوچکی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ خواتین مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لارہی ہیں‘ حکومت کا بھی اب یہ فرض ہے کہ وہ بلا سود قرضوں کے اجرا اور ان کے حصول کی شرائط میں نمی کرتے ہوئے خواتین کی معاونت کرے۔ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے باوجود پشاور میں خواتین نے اپنا کاروبار نہیں چھوڑا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب زیادہ سے زیادہ خواتین اپنا کاروبار شروع کرنے کی جانب متوجہ ہورہی ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف خواتین ونگ پشاور کی صدر رابعہ بصری کہتی ہیں کہ خیبرپختونخوا بہت جلد اپنا کاروبارکرنے والی خواتین کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کرے گی۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ حکومت خیبر بنک کے ساتھ رابطے میں ہے اور خیبر پختونخوا میں خواتین کے لیے جلدبلاسود قرضوں کے اجرا کا اعلان کر دیا جائے گا۔
خواتین پاکستان کی آبادی کا نصف ہیں‘ اگر ان میں سے ایک بڑی تعداد معاشی سرگرمیوں میں شریک ہوتی ہے تو نہ صرف بہت سوں کا معاشی مقام بہتر ہوگا بلکہ ملک بھی نسبتاً مختصر عرصہ میں ایک روشن مستقبل کی جانب بڑھے گا۔ ہر ترقی یافتہ ملک نے ترقی کے لیے اسی فارمولے پر عمل کیا ہے اور نتائج آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔