پشاور (وصال یوسف زئی سے) چارسدہ کی چپلیں، جو عمومی طور پر پشاوری چپلوں کے طور پر معروف ہیں‘ تقریباً ہر پاکستانی کے لیے فیشن کا ایک لازمی جزوبن چکی ہیں۔ کوئی ایسا مذہبی تہوار یا تقریب نہیں ہے جو پشاوری چپلوں کو پہنے بغیر مکمل تصور ہوتی ہو۔ حتیٰ کہ ان چپلوں کا استعمال سفید شلوار قمیص کے ساتھ عید اور دیگر تہواروں پربھی عام ہے۔
چارسدہ میں 1978ء میں قائم ہونے والی غفور مارکیٹ میں چپل بنانے کے تقریباً چھ سو یونٹ ہیں۔ ہر یونٹ پر مختلف ڈیزائن کی چپلیں تیار کی جاتی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اس کاروبار سے تقریباً 10ہزار افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
چارسدہ چپل ایسوسی ایشن کے سابق صدر شاہ حسین نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں روزانہ 10ہزار چپلیں تیار کی جاتی ہیں اور ان کی بناوٹ میں بھی فرق ہوتا ہے۔ کچھ جوڑوں کی ایک بار، کچھ کی دو بار اور کچھ کی تین بار تک سلائی کی جاتی ہے۔ اگر ایک چپل کی تین بار سلائی کی گئی ہو تو وہ موخرالذکر چپلوں سے زیادہ پائیدار ہوتی ہے۔ مزیدبرآں گاہکوں میں چار سدہ چپلوں کے مختلف ڈیزائن بھی مقبول ہیں۔
’’کیپٹن چپل‘‘ مارکیٹ میں ایک نیا اضافہ ہے۔ اس چپل کا نام پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ اور سابق کرکٹرعمران خان سے متاثر ہوکر رکھا گیا ہے اور یہ برانڈ خیبرپختونخوا میں انتہائی مقبول ہوچکا ہے۔
شاہ حسین نے کہا:’’ مقامی طور پر یہ کپتان چپل کہلاتی ہے جو چپلوں کی دوسری اقسام سے مہنگی ہے۔ اس پر پانچ سے دس ہزار روپے تک لاگت آتی ہے۔ عام طور پر سیاست دان اور صاحبِ ثروت خاندانوں کے لوگ ہی اس چپل کوبنوانے کا آرڈر دیتے ہیں۔‘‘
تاریخ دان دعویٰ کرتے ہیں کہ چارسدہ کی ان مقبولِ عام چپلوں کا استعمال سکندرِ اعظم کے عہد میں شروع ہوا۔
شاہ حسین کوچپل بنانے کا کاروبار ورثے میں ملا جن کے اجداد گزشتہ ایک سو برس سے جفت سازی کے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان کے مطابق پشاوری چپل مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور امریکہ میں برآمد بھی کی جاتی ہے۔
ایک برطانوی شو ڈیزائنر پال سمتھ نے چارسدہ کی ان روایتی چپلوں کی نقل تیار کرکے ان کو رابرٹ سینڈلز کے نام سے متعارف کروایا ہے۔ وہ ہر جوڑا تین سو پاؤنڈز میں فروخت کر رہا ہے۔
چارسدہ کی ان روایتی چپلوں میں مقامی اور درآمد شدہ ہر دو طرح کا چمڑا استعمال ہوتا ہے۔ چمڑے کی صنعت کا مرکز چوں کہ لاہور ہے جس کے باعث اکثر و بیش تر جوتوں کے جوڑوں کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹرلیبر عرفان خان نے راقم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی وجہ سے چمڑا سازی کے یونٹ بند ہوچکے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت صنعت کی بحالی کے لیے کوشاں ہے لیکن فنڈز کی قلت کے باعث مذکورہ منصوبہ شروع کرنے میں دشواری پیش آر ہی ہے۔
چارسدہ چپل ایسوسی ایشن کے صدر حاجی مقصود نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے2003ء میں جفت سازی کی تربیت کے لیے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان، وزارتِ خزانہ اور چارسدہ چپل میکرز ایسوسی ایشن کے اشتراک سے فٹ ویئر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا:’’ چارسدہ میں ایکسپورٹ پروموشن بیورو کے تعاون سے اس حوالے سے 32کنال اراضی خریدی گئی۔ لیکن 12برس بیت جانے کے باوجود یہ ادارہ اب بھی کرایے کے ایک گھر میں کام کر رہا ہے۔‘‘
فٹ ویئر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں استاد فضلی امین نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ادارے میں پانچ سو خواتین اور پانچ سو مرد تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ خواتین کو چمڑے کے پرس اور بٹوے بنانے کی تربیت فراہم کی جارہی ہے تو مردوں کو جفت سازی کا فن سکھایا جارہا ہے۔طالب علموں کی ایک بڑی تعداد دستی بیگوں اور جوتوں کا کاروبار شروع کر چکی ہے۔
خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر فواد اسحق کہتے ہیں کہ انہوں نے جفت سازی کا تربیتی ادارہ قائم کرنے کے لیے وفاقی وزیرخزانہ خرم دستگیر سے بات کی ہے۔ فواد چوں کہ ایکسپورٹس ڈویلپمنٹ فنڈز کے رُکن بھی ہیں چناں چہ ان کی یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ وہ ایک سروے رپورٹ تیار کریں جس کے بعد وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس ادارے کی تعمیر کے لیے جلد فنڈز جاری کر دیئے جائیں گے۔