پشاور ( عبدالمالک اچکزئی سے) پشتو لہجے میں شائستگی کے ساتھ گفتگو کرنے والے میر واعظ کے جسم میں اس وقت کوئی کپکپاہٹ ہوئی اور نہ ہی ان کا چہرہ زرد پڑا جب انہوں نے اپنی دکان کے قریب ہی گلی میں پولیس کی ایک گاڑی کو گشت کرتے ہوئے دیکھا۔ کچھ ہفتے قبل جب پولیس اس علاقے میں گشت کر رہی تھی تو وہ اپنی دکان میں محصور ہوگئے تھے۔
میر واعظ اب مزید دو برس تک پاکستان میں قیام کرسکتے ہیں کیوں کہ پاکستان، افغانستان اور اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر)کے حکام نے افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام کی مدت میں دو برس کی توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔
یو این ایچ سی آر سے 16لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں جن کی اکثریت خیبرپختونخوا، فاٹا اور بلوچستان میں آباد ہے۔
سرحدی علاقوں کے وزیرِ مملکت عبدالقدیر بلوچ نے کابل میں افغانستان کی حکومت اور یو این ایچ سی آر کے ذمہ داروں کے ساتھ سہ طرفہ مذاکرات میں اعلان کیا کہ افغان مہاجرین کے مہاجرکارڈز اب دو برس تک کارآمد رہیں گے جو پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کے طور پر بھی معروف ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے ترجمان نے کہا کہ یواین ایچ سی آر 16لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے تحفظ کے لیے پاکستان کی جانب سے اس ذمہ داری کو ازسرِنو نبھانے کے عزم کو خوش آئند قرار دیتا ہے۔
میر واعظ کی طرح کے سینکڑوں افغان خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں اور قصبوں میں کریانہ سٹورز، سبزیوں و ڈیری مصنوعات کے کاروبار سے تو منسلک ہیں ہی‘ وہ اس کے ساتھ ہی موچی، حجام ونانبائی کا کام بھی کررہے ہیں کیوں کہ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد خیبرپختونخوا میں آباد ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن پیرزادہ فواد الرحمن نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ارباب روڈ کی ’’ربانی سٹریٹ‘‘ کا نام اس وقت کے افغان وزیراعظم اور مجاہدین کے رہنما (مقتول) پروفیسر برہان الدین ربانی سے منسوب کیا گیا تھا جنہوں نے سویت فورسز کے خلاف افغان مجاہدین کے ایک دھڑے کی قیادت کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا :’’ حتیٰ کہ انتہا پسند رہنما گلبدین حکمت یار کا خاندان بھی پشاور میں آباد ہے اور ان کے صاحب زادے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں سیاسی اجتماعات سے خطاب کرتے ہیں۔‘‘
میر واعظ نے اپنی دکان پر گاہکوں کو نپٹاتے ہوئے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’میری پیدائش پشاور کی ہے۔ میَں اسی شہر میں پلا بڑھااور پرائمری سے مڈل تک تعلیم حاصل کی جس کے بعد کاروبار شروع کیا کیوں کہ خاندان کا واحد کفیل تھا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کے مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجنے کے فیصلے سے پریشان تھے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ میں اپنا کاروبارجلال آباد(افغانستان میں ان کا آبائی صوبہ) میں اس طرح نہیں چلا سکتا جس طرح اب یہ پشاور میں فروغ پا رہا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ پاکستان میں مزید دو برس قیام کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔‘‘
16برس کے اجمل خان پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کے والدین کا پاکستانی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ ( شہریت کا کارڈ) نہیں ہے۔ انہوں نے کہا:’’ یونیورسٹیوں میں افغان مہاجرین کے لیے ایک یا دو نشستوں کا کوٹہ مختص ہے تاہم مہاجر طالب علموں کی ایک بڑی تعداد سرکاری یونیورسٹیوں میں داخلہ نہیں لیتی۔ وہ نجی تعلیمی اداروں کا رُخ کرتے ہیں یا پھر اپنا کاروبارشروع کر دیتے ہیں۔‘‘
کچھ افغان مہاجرین نے خود کو پاکستانی شہری کے طور پر اس وقت رجسٹرڈ کروایا جب پرانی طرز کا قومی شناختی کارڈجاری کیا جاتا تھا۔ بہت سوں نے ان شناختی کارڈوں کی تصدیق کروائی اورکمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب بھی رہے لیکن تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سے پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت ناک حملے کے بعد ، جس میں 132طالب علم شہید ہوگئے تھے، پاکستان کی افغان مہاجرین کے حوالے سے پالیسی واضح ہوئی۔ چناں چہ کریک ڈاؤن شروع ہوا اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی نے افغان مہاجرین کے ایک لاکھ سے زائد کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ منجمد کر دیئے۔
یو این ایچ سی آر کے ایک اہل کار قیصر خان آفریدی کہتے ہیں:’’ 2002ء کے بعد سے اب تک تقریباً39لاکھ افغان مہاجرین افغانستان واپس جاچکے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت 15لاکھ افغان مہاجرین آباد ہیں جو دنیا بھر میں طویل عرصہ سے کسی بھی بیرونی ملک میں آباد مہاجرین کی سب سے بڑی تعدادہے۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:’’ افغان مہاجرین کی رجسٹرڈ آبادی کے علاوہ حکومتِ پاکستان کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 10لاکھ افغان مہاجرین غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو پاکستان میں کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ قیصر خان آفریدی نے کہا:’’یو این ایچ سی آر کے دائرہ کارمیں غیر قانونی مہاجرین نہیں آتے۔ تاہم وہ مہاجر جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ افغانستان میں واپسی پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث ا ن کی جان کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں تو یواین ایچ سی آر کے مینڈیٹ کے تحت ان کی مہاجرین کی حیثیت کے تعین کے ضابطے تک رسائی ممکن بنائی جائے گی۔‘‘
سکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے صوبوں میں بہت سی کارروائیاں کی ہیں اور سینکڑوں افغان مہاجرین کو کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث حراست میں لیا ہے جن میں سے ایک بڑی تعداد کو پاکستان کے فارن ایکٹ کے تحت افغانستان ڈی پورٹ کیا جاچکا ہے۔
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے رُکن عبدالمجید خان کہتے ہیں:’’پاکستان میں افغان مہاجرین عالمی قانون اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت رہ رہے ہیں‘ ان پر تشدد غیر قانونی ہے۔‘‘
سینئر سیاست دان محمود خان اچکزئی نے کہا:’’ پشتونوں اور افغانوں کی قومیت ایک ہی ہے‘ پشتونوں کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ منجمد کرکے ان کو دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ان کی شہریت قبول نہیں کررہا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان مختلف قومیتوں پر مشتمل وفاق ہے جن میں پشتون، بلوچ، سندھی اور پنجابی شامل ہیں جس کے باعث پشتونوں کو پاکستان میں کہیں پر بھی اپنا کاروبارشروع کرنے، جائیداد خریدنے اور تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی انسانی و سماجی حقوق کی کارکن ثناء اعجاز خان کہتی ہیں:’’ افغان مہاجرین کے خلاف عسکریت پسندی کی واحد وجہ کے تحت کارروائیاں کرنے کا مقصد افغان حکومت پر دباؤ بڑھانا ہے۔‘‘
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایم فل کے طالب ناصر ننگیال نے کہاکہ افغانستان میں امن و امان کی بحالی کے بعد افغان فوری طور پرپاکستان سے واپس چلے جائیں گے۔