پشاور ( وصال یوسف زئی سے) پلوشہ خان اور ان کے دو بچے گزشتہ دو برسوں سے سنٹرل جیل پشاور میں رہ رہے ہیں۔ان کو ہیپاٹائٹس سی وائرس (ایس سی وی) کی تشخیص کی جاچکی ہے۔ پلوشہ کی ماہر ڈاکٹروں تک رسائی ہے اور نہ ہی سنٹرل جیل پشاور میں اس قدر طبی سہولیات فراہم کی گئی ہیں جن پر انحصار کیا جاسکے۔‘‘ انہوں نے کہا:’’ میری صحت مزید خراب ہوسکتی ہے جب کہ میرے ساتھ رہنے والے بھی اس بیماری سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ جیل میں حالات انتہائی خراب ہیں۔‘‘
نیوز لینز پاکستان کو محکمۂ جیل خانہ جات خیبرپختونخوا کی جانب سے معلومات تک رسائی کے حق کی درخواست پر حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق صوبے کی 22جیلوں میں دو قیدی ایچ آئی وی جب کہ 53مرد اور دو خواتین ہیپاٹائٹس سی سے متاثر ہیں۔خیبرپختونخوا کی 22جیلوں میں گنجائش سے زیادہ9503قیدی سزا کاٹ رہے ہیں جب کہ 8091قیدیوں کی گنجائش ہے، بیماریوں اور مختلف عارضوں کا شکار ہونے والے قیدیوں کے لیے 14مرد اور دو خواتین ڈاکٹرز، 38طبی تکنیک کار اور نو خواتین ماہرین نفسیات خدمات انجام دے رہی ہیں۔
تاہم رواں برس مئی میں جے یو آئی (ف) کی قانون ساز نجمہ شاہین کے سوال پر خیبرپختونخوا اسمبلی کوصوبائی محکمۂ جیل خانہ جات کی جانب سے ارسال کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں قائم چار سنٹرل جیلوں،10ڈسٹرکٹ جیلوں، چار سب جیلوں اور متعدد حوالات میں مرد و خواتین قیدیوں کی گنجائش بالترتیب 7793اور 298ہے۔ اس وقت صوبے بھر میں 9320مرد اور 193خواتین قیدی سزا کاٹ رہے ہیں۔
پشاور میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم وائس آف پرزنرز کے سربراہ نور عالم خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں سکریننگ ٹیسٹ کرنے کے لیے کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے جس سے یہ تشخیص ہوسکے کہ آیا قیدی متعدی بیماریوں جیسا کہ ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں یا نہیں۔
سنٹرل جیل پشاور میں قیدیاسین خان نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب ایک برس قبل ان کو جیل میں بند کیا گیا تو ان کو ہیپاٹائٹس سی نہیں تھا۔ ڈاکٹر اب یہ کہتے ہیں کہ وہ اس مہلک بیماری کا شکار ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اس کی ذمہ داری جیل میں صفائی کے ناقص انتظامات پر عاید کی جس کے باعث وہ اس بیماری سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ جیل میں بیت الخلاؤں کی تعدادناکافی ہے اور ان میں سے بھی بڑی تعداد کی روزانہ کی بنیاد پر صفائی نہیں کی جاتی جس کے باعث قیدیوں کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ ایک ریزر سے بہت سے قیدیوں کی شیو بنائی جاتی ہے جو میرے ہیپاٹائٹس سی سے متاثر ہونے کی ایک اہم وجہ ہوسکتی ہے۔‘‘
خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور سے منسلک میڈیکل افسر ڈاکٹر عمر خان کے مطابق جیلوں میں قیدی خواتین کے ہیپاٹائٹس سی سے متاثر ہونے کے خدشات زیادہ ہیں کیوں کہ زچگی کی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ لیبر روم میں خواتین کے علاج کے لیے آلودہ طبی آلات جب کہ پرانی سرنجوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانون ان قیدیوں کے لیے نرم ہوجاتا ہے جو متعدی بیماریوں سے متاثر ہوں‘ ان کا جیل میں علاج ممکن نہ ہو یا وہ قیدی جو بسترِ مرگ پر ہوں۔ ڈاکٹر عمر خان نے کہا کہ ہماری جیلوں میں ان قواعد پر عمل نہیں کیا جارہا۔
ڈاکٹر عثمان نے کہا:’’ پشاور کی سنٹرل جیل میں چھ ماہ سے پانچ برس تک کی عمر کے 19بچے قید ہیں۔ یہ تمام بچے ان بیماریوں سے متاثر ہوسکتے ہیں جنہیں جیل کے اس ضرررساں ماحول سے بچانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جب کہ بچوں کے تحفظ کا ایکٹ بھی موجود ہے۔ حکومت جیل میں آنے والے نئے قیدیوں کی سکریننگ لازمی بنائے تاکہ ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ قیدیوں کو الگ رکھاجائے۔‘‘
سنٹرل جیل پشاور کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ سنٹرل جیل پشاور کے 22سو قیدیوں کے لیے 21بستروں پر مشتمل مردوں اور پانچ بستروں پر مشتمل خواتین کے ہسپتال قائم ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے جیل خانہ جات ملک قاسم خان خٹک نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت صوبے کی تمام جیلوں میں بہترین طبی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
انہوں نے ہیپاٹائٹس سی اور ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کو موزوں طبی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے حکومتی کوششوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان بیماریوں کے علاج کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور حکومت اس حوالے سے اپنی بہترین کوششیں بروئے کار لا رہی ہے۔
ملک قاسم خان خٹک نے مزید کہا:’’ ہم ہمیشہ اس اَمر کے خواہاں رہے ہیں کہ سنٹرل جیل پشاور میں محکمۂ صحت خیبرپختونخوا کے تعاون سے متعدی بیماریوں کے حوالے سے منصوبہ شروع کیا جائے۔ اس منصوبے کے لیے محکمۂ صحت کو تجاویز ارسال کی جاچکی ہیں لیکن فنڈر کی کمی کے باعث یہ پراجیکٹ شروع نہیں ہوسکا لیکن اب ہم اسے جلد سے جلد شروع کرنے کے حوالے سے پرامید ہیں۔‘‘
وزاعلیٰ خیبرپختونخوا کے قانونی امور پر مشیر عارف یوسف نے نیو زلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ خیبرپختونخوا کی جیلوں میں طبی سہولیات کا فقدان ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ میں اس حقیقت سے مکمل طور پر آگاہ ہوں کہ جیلوں میں ڈاکٹروں اور خاص طو رپر خواتین ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کے مسائل ہیں اور حکومت ان مسائل کے حل کے حوالے سے غور وفکر کر رہی ہے اور قیدیوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے اپنی بہترین کوششوں کو بروئے کار لا رہی ہے۔‘‘
Home Other Languages Urdu Stories خیبرپختونخوا کی جیلوں میں طبی سہولتوں کا فقدان‘ ایچ آئی وی ایڈز...