خیبرپختونخوا احتساب کمیشن کا قیام۔۔۔ صوبائی حکومت کا انسدادِ کرپشن کی جانب ایک اہم قدم

0
3057

پشاور ( انعام اللہ سے) خیبرپختونخوا میں برسرِاقتدارپاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے صوبائی سطح پر انسدادِ کرپشن کا ادارہ قائم کیا ہے جس کا نام خیبر پختونخوا احتساب کمیشن ہے تاکہ ان ملزموں کو سزا دی جاسکے جو عام طور پر عوامی عہدوں پر منتخب ہونے یا پھر سرکاری افسروں کی حمایت کی وجہ سے حاصل ہونے والے اثر ور سوخ کے باعث سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔
خیبرپختونخوا احتساب کمیشن کا قیام صوبائی اسمبلی کے ایکٹ 2014ء کے تحت عمل میں آیا ہے جو ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے اور اس کے قیام کا بنیادی مقصد حکومت اور سرکاری اداروں پر شہریوں کا اعتماد بحال کرنا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے یہ ادارہ قائم کرکے احتساب اور بہتر طرزِ حکمرانی کے ذریعے کرپشن ختم کرنے کی جانب ایک اور اہم پیش رفت کی ہے جو اس سے قبل معلومات تک رسائی کا ایکٹ 2013ء منظور کرچکی ہے۔
خیبرپختونخوا احتساب کمیشن نے اب تک مختلف محکموں سے 40افسروں اور بیوروکریٹس کو حراست میں لیا ہے جن میں تعلیم ، صحت، معدنیات،پولیس، ایکسائز اور ٹیکسیشن کے محکمے اور پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی شامل ہے۔
احتساب کمیشن کی سب سے بڑی کامیابی رواں برس نو جولائی کو معدنیات کے وزیر ضیاء اللہ آفریدی کی حراست تھی جن کے خلاف یہ اقدام فنڈز کے غلط استعمال پرکیا گیا ہے جس کے باعث صوبائی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف سے منسلک قانون ساز شوکت علی یوسف زئی نے اپنی حکومت کے کرپشن کے خلاف اس اقدام کی ستائش کرتے ہوئے کہاکہ وفاق کے زیرِانتظام قومی احتساب بیورو (نیب) کی ناکامی کے باعث خیبرپختونخوا حکومت اپنی احتساب پالیسی تشکیل دینے پر مجبور ہوئی۔ احتساب کمیشن اس پالیسی کاہی ایک اظہار ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ نیب میں برسوں سے مقدمات زیرِالتوا ہیں۔ نیب سیاست زدہ ہوچکا ہے اور طاقت ور افراد جیسا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف تفتیش شروع کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نیب بڑی مچھلیوں کے خلاف کارروائی نہ کرکے وائٹ کالر جرائم کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔‘‘
پی ٹی آئی رہنماؤں کے خیال میں کرپشن کے الزامات پر ایک وزیر کی گرفتاری بہتر طرزِ حکمرانی کا ایک اظہار ہے۔پی ٹی آئی یہ استدلال پیش کرتی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک وزیر کو گرفتار کیا گیا جس سے پی ٹی آئی کے کرپشن کے عفریت پر قابو پانے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔
لیکن بہت سوں کے لیے اس کمیشن کا قیام محض ایک دکھاوا ہے۔
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینئر قانون دان اور عوامی نیشنل پارٹی کی سابق حکومت میں صوبائی وزیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے لطیف آفریدی کے مطابق احتساب کمیشن کے قیام کا مقصد درحقیقت سیاسی حریفوں کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔
انہوں نے نشان دہی کی:’’ کمیشن کی جانب سے ان افسروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جن کی پاکستان پیپلز پارٹی یا عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں سے دوستی یا قرابت داری ہے۔‘‘
لطیف آفریدی نے مزید کہا کہ ضیاء اللہ آفریدی کی گرفتاری پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کا شاخسانہ تھی اور اس کا انسدادِ کرپشن کی اس نام نہاد مہم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا:’’اپنے ایک وزیر کے خلاف کارروائی کرکے پی ٹی آئی نے یہ تاثر دیاہے کہ صوبائی احتساب کمیشن غیر متعصب ہے۔ اس کمیشن کا قیام سراسر غلط ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ انسداد کرپشن کے ایکٹ 1947ء ، وفاقی تفتیشی ایجنسی اور نیب آرڈیننس 1999ء کے ہوتے ہوئے ایک اور تفتیشی ادارہ قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
لطیف آفریدی نے کہا:’’ پاکستان کے آئین کی شق 143کے مطابق جب وفاقی سطح پر کوئی قانون موجود ہو تو اسی حوالے سے صوبائی قانون سازی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔نیب آرڈیننس کے ہوتے ہوئے خیبرپختونخوا احتساب کمیشن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔‘‘
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے قانونی امور پر مشیر عارف یوسف نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے کمیشن تشکیل دیتے ہوئے ہر قانونی ضابطے کو پیشِ نظر رکھا۔ یہ ملزم کی حمایت یا اس کے خلاف بے وجہ کارروائی نہیں کرتا۔ اگر کمیشن پر یہ منکشف ہوتا ہے کہ ضیاء اللہ آفریدی معاشی بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں تو ان کے خلاف مقدمہ چلے گااور ان کوسزا دی جائے گی اور اگر ان کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوتے تو وہ دوبارہ اپنی وزارت سنبھال لیں گے اور ذمہ داریاں ادا کرنے لگیں گے۔
انہوں نے مزید کہا :’’ پی ٹی آئی کی حکومت نے چار سو کرپٹ پولیس افسروں اورآٹھ سو اساتذہ کو برخاست کیا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here