کوئٹہ (صٖفی اللہ شاہوانی سے) خلیل احمد شہر کی مصروف شاہراہ سریاب روڈ کے ایک ریستوران میں دوپہر کے وقت ملنے والے کھانے کے آرڈرز بروقت گاہکوں تک پہنچانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ اگرچہ اس ریستوران میں دو اور بچے بھی ویٹر کے طور پر کام کرتے ہیں جو اس مصروف ریستوران میں چائے اور کھانا گاہکوں کو پیش کرتے ہیں لیکن نو برس کا احمد ہال میں اور باہر سڑک پر کھلے آسمان تلے لگی ہوئی میزوں کے درمیان تیزی سے حرکت کرتا ہے اور میلے کچیلے برتنوں کو بے ڈھنگے انداز سے اپنی ہتھیلی پر اٹھاتا ہے تاکہ گاہکوں کو بروقت کھانا پرو سکے۔
بعدازاں جب گاہکوں کا رَش کم ہوتا ہے اورصرف چائے پینے والے گاہک ہی رہ جاتے ہیں تو اس وقت احمد کچھ لمحوں کے لیے آرام کرسکتا ہے‘ وہ ریستوران کے باہر کنکریٹ کے میز پر بیٹھ جاتا ہے۔
اس سے اگر استفسار کیا جائے کہ وہ مستقبل میں کیا کرنا چاہے گا تو احمد کا جواب ہوگا کہ اس کا خواب ہے کہ وہ ایک افسر بنے۔ کس قسم کا افسر؟وہ بے اطمینانی سے شانے اچکاتا ہے ‘لوگوں اور مشینوں کے ہجوم کو خالی نظروں سے گھورتے ہوئے آہستگی سے کہتا ہے:’’ ایک ایسا افسر جس کی اپنی گاڑی اور دفتر ہو۔‘‘
احمد کبھی سکول نہیں گیا۔ اس کے والدین نے اس کا سکول میں داخلہ نہیں کروایا کیوں کہ اس کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے جس کے لیے یہ تصور کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ ریستوران کی جانب سے اسے ماہانہ12سو روپے تنخواہ ملتی ہے۔ جمعہ کے روز 50روپے بونس کے طور پر الگ سے ملتے ہیں۔
احمد نے آہستگی سے کہا:’’ میں سکول داخل ہونا چاہتا ہوں لیکن ہفتہ میں سات روز تک صبح نو سے رات نو بجے تک کام کرنا پڑتا ہے۔ ریستوران میں کام کرنے کے سوا میَں کچھ اور نہیں کرسکتا۔‘‘
کوئٹہ میں ہزاروں محنت کش بچے مختلف کاروباری اداروں، آٹو مکینک ورکشاپوں اور شاپنگ سنٹرز پر کام کرتے ہیں‘ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سوسائٹی فارایمپاورنگ ہیومن ریسورسز (ایس ای ایچ ای آر) کے مطابق کوئٹہ میں 10ہزار سے زائد بچے محنت کش کے طو رپر کام کر رہے ہیں۔ ایس ای ایچ ای آر کے پروگرام آفیسر حافظ رحمت اللہ کہتے ہیں کہ ان میں سے 60فی صد بچے خاکروب کے طور پر کام کرتے ہیں۔
بلوچستان کی طرح کے غیر دستاویزی معاشرے سے متعلق مستند اعداد و شمار کا حصول انتہائی مشکل ہے جو اگرچہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن اس کی آبادی سب سے کم ہے‘ ایس ای ایچ ای آر کے مطابق صوبے میں محنت کش بچوں کی تعداد تقریباً30ہزار ہے۔
حافظ رحمت اللہ کہتے ہیں:’’ بچوں کی بڑی تعداد اینٹوں کے بھٹوں، کوئلے کی کانوں، ریستورانوں، زرعی شعبے اور کرومائٹ کی کانوں میں مزدوری کرنے کے علاوہ خاکروب کے طور پر کام کرتی ہے۔‘‘
آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد چائلڈ لیبر کے عفریت پر قابو پانا اب صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ تاہم بلوچستان کو چائلڈ لیبر پر پابندی عاید کرنے کے لیے ہنوز قانون سازی کرنی ہے۔ چائلڈ لیبر کے حوالے سے ترمیمی بل 2014ء پر صوبائی سطح پر مشاورت جاری ہے لیکن یہ اب تک منظور نہیں ہوسکا۔
سریاب روڈ کے قریب ہی گھئی خان چوک کے قرب میں قائم رفتار آٹوورکشاپ پرایک بچہ محمد ناصر کام کرتا ہے۔ وہ صرف پانچ برس کا ہے۔ اس نے دو ہفتے قبل ہی اس ورکشاپ پر کام شروع کیا ہے۔وہ ایک ہونہار شاگرد کی طرح، اپنے سے زیادہ تجربہ کار اور بڑی عمر کے کاریگروں کے ساتھ سایے کی طرح حرکت کرتا ہے، جسے سیکھنے اور فرماں برداری کا جنون کی حد تک شوق ہے۔
ناصر کہتا ہے:’’ مجھے سکول جانا اچھا نہیں لگتا۔‘‘یہ بچوں کی ایک معصومانہ سی ادا ہوتی ہے‘ وہ کہتا ہے:’’ مجھے یہاں ورکشاپ پرکام کرنا پسند ہے۔میرے والدین کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں ایک ورکشاپ پر کام کرتا ہوں یا پھر سکول جاتا ہوں۔‘‘
لیبر حکام کے مطابق کوئٹہ میں محکمۂ لیبر سے منسلک لیبر انسپکٹرز چائلڈ لیبر کے قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں روزانہ کی بنیاد پر تفتیش کرتے ہیں۔ اگر کسی کاروباری ادارے کا مالک بچوں کو ملازمت دینے میں ملوث پایا جائے تو اسے نوٹس بھیجنے کے علاوہ لیبر کورٹ طلب کیا جاتا ہے۔
محکمۂ لیبر بلوچستان کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سمیر نثارکہتے ہیں:’’ صوبے میں ایک الگ لیبر کورٹ قائم کی گئی ہے جہاں پر اس نوعیت کے مقدمات کی سماعت کی جاتی ہے اور ان میں ملوث لوگوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔‘‘سمیر نثار گزشتہ تین برسوں سے چائلڈ لیبر کے تدارک کے لیے کام کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’نابالغ‘‘ کی تعریف کے حوالے سے اختلافِ رائے پایا جاتا ہے تاہم عمومی طور پر 14برس سے کم عمر کے بچے کو نابالغ خیال کیا جاتا ہے اور اگر وہ مزدوری کررہا ہو تو اس کی رپورٹ درج کروائی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چائلڈ لیبر ملک میں بچوں کے محنت مزدوری کرنے کے حوالے سے رائج قوانین کی ہی نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے کیوں کہ بیش تر کاروباری اداروں میں کام کرنے والے بچوں کو بہت کم معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔
سمیر نثار نے مزید کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس حوالے سے بحالی کا کوئی باضابطہ پروگرام شروع نہیں کیا گیا‘ محکمۂ لیبر کی جانب سے چائلڈ لیبر سے متعلق واقعات کو رپورٹ کرنے کی ذمہ داری ادا کیے جانے کے باوجود حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
انہوں نے کہا:’’ والدین ہم سے رابطہ کرتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کو کام کرنے دیا جائے کیوں کہ وہ خاندان کے کفیل کی ذمہ داری ادا کررہا ہے۔‘‘
بلوچستان کی حکومت، جو صوبے کے ہر بچے کی تعلیم کی خواہاں ہے، نے بچوں کی تعلیم کے لیے اپنے بجٹ کا 24فی صد مختص کیا ہے۔ آئین کی شق 25(A)حکومت پر یہ ذمہ داری عاید کرتی ہے کہ وہ پانچ سے 16برس تک کی عمر کے بچوں کو تعلیم کی بلامعاوضہ اور ہر صورت میں فراہمی یقینی بنائے۔
مزید برآں اقوامِ متحدہ کے ہزاریے کے ترقیاتی اہداف (ایم ڈی جیز) کی شق2 دنیا کے ہر بچے کے تعلیم حاصل کرنے کے ہدف کے حصول سے متعلق ہے۔ پاکستان، جو ایم ڈی جیز کا دستخط کنندہ ہے، 2015ء کو ڈیڈ لائن تک اس ہدف کو حاصل نہیں کرسکا ۔
پاکستان بچوں کے حقوق پر عالمی کنونشن کا بھی دستخط کنندہ ہے۔ پاکستان نے بچوں کے حقوق (سی آر سی) پر کنونشن کی 12دسمبر 1990ء کو توثیق کی تھی جب کہ کنونشن کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے دو دسمبر 1990ء میں منظور کیا گیا۔
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی رُکن ڈاکٹر رقیہ ہاشمی کے مطابق ایک غریب صوبے جیسا کہ بلوچستان میں چائلڈ لیبر پریشان کن ہے جہاں پر ہر گزرتے دن کے ساتھ بچوں کی ایک بڑی تعداد غربت اور تعلیمی سہولیات کے فقدان کے باعث اس جانب راغب ہورہی ہے۔
ان سے جب صوبے میں چائلڈ لیبر پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کے متعلق استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے ایک بل منظور کیا تھا جس پر اب تک عملدرآمد نہیں کیا جاسکا۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی خواتین اراکین نے ایک گروپ تشکیل دیا ہے جو چائلڈ لیبر کے تدارک کے لیے کام کرے گا۔ ڈاکٹر رقیہ ہاشمی نے کہا کہ اس گروپ کو وومن پارلیمنٹرینز ووکل گروپ کا نام دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ خواتین ارکانِ پارلیمان نے چائلڈ لیبر کے خلاف یہ اقدام اس لیے بھی کیا ہے کیوں کہ ایک ماں کی حیثیت سے وہ ایک بچے کی خوشی اور تکلیف کا زیادہ بہتر طورپر ادراک کرسکتی ہیں۔
سریاب روڈ پر ریستوران اورآٹومکینک ورکشاپ کے مالکان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بچوں کے تحفظ کے قوانین اور حکومت کے ان پر عملدرآمد کرنے کے عزم سے آگاہ نہیں ہیں۔