پشاور (اظہار اللہ سے) ممکن ہے حسن خان جسمانی طور پر معذور ہوں کیوں کہ وہ قوتِ سماعت و گویائی سے محروم ہیں لیکن 12برس کا یہ بچہ اس حقیقت کا ادراک رکھتا ہے کہ اس کا اگلا قدم کیا ہوگاکیوں کہ اس کے آبائی شہر دیر میں خصوصی بچوں کے لیے قائم سکول کی انتظامیہ نے اس کی جانب سے جمع کروائی گئی مزید تعلیم حاصل کرنے کی درخواست رَد کردی ہے۔
انہوں نے اپنے فیس بک کے صفحے پر پوسٹ لگائی:’’میرا نام حسن خان ہے۔ میں قوتِ سماعت و گویائی سے محروم ایک بچہ ہوں۔ کیا تعلیم حاصل کرنا میرا حق نہیں ہے؟‘‘
حسن خان نے رواں برس مارچ میں جماعت ششم کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ جب اس نے سینئر سکول میں داخلہ لینے کے لیے اپنی کوششوں کاآغاز کیا تو لوئر دیر میں قائم خصوصی بچوں کے سکول کی انتظامیہ نے اسے آگاہ کیا کہ اس سکول میں صرف پرائمری تک تعلیم دی جاتی ہے۔
انہوں نے فیس بک پر مزید لکھا:’’ میَں اور میرے 13ہم جماعتوں کوجماعت ہفتم میں داخلہ دینے سے انکار کردیا گیا جب کہ حقیقت تو ہے کہ میَں نے اسی سکول سے پرائمری تک اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔‘‘
حسن خان کی 13برس کی بہن سونیا خان اور10برس کے چھوٹے بھائی فیصل خان کے علاوہ 13دیگر طالب علموں، جو قوتِ سماعت و گویائی سے محروم ہیں، نے لوئر دیر کے شہر تیمرگرہ میں قائم قوتِ سماعت و گویائی سے محروم بچوں کے سرکاری سکول سے جماعت ششم کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
حسن خان نے فیس بک کے ذریعے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم بچوں کو سکول میں داخلہ دینے سے اس لیے انکار کیا گیا کیوں کہ سکول کی عمارت میں اس قدر گنجائش نہیں ہے کہ مزیدبچوں کو تعلیم دی جاسکے جب کہ عملے کی کمی کا سامنا بھی ہے۔‘‘
ان سے نیوز لینز نے جب مستقبل کے ممکنہ امکانات کے بارے میں استفسار کیا تو حسن نے کہا کہ ان کے سامنے دو راستے تھے: و’’ہ اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کردیتے یاپھر اپنے حقِ تعلیم کے لیے جدوجہد کرتے۔‘‘ انہوں نے کہا:’’ میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ صوبے کے حکمرانوں کی قوتِ سماعت و گویائی سے محروم بچوں کو ان کے حقوق دلانے کی جانب کوئی توجہ نہیں ہے کیوں کہ ہماری کوئی آواز نہیں ہے لیکن میں نے اب اس حوالے سے سماجی میڈیا پر ایک مہم شروع کی ہے۔‘‘
حسن کے والد عامر زاد گل قوتِ سماعت و گویائی سے محروم اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے حکام سے مدد فراہم کرنے کی درخواست کرتے رہے ہیں لیکن ان کو کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ پریشان ہیں کیوں کہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے ’’معاشرے پر بوجھ بن جائیں۔‘‘
عامر زاد گل نے نیوز لینز سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو سماج کے ذمہ دار اور تعلیم یافتہ ارکان کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کے حوالے سے قرارداد کی شق 26کے مطابق:’’ ہر فرد کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ ابتدائی تعلیم بلا معاوضہ اور لازمی ہو۔اس کے ساتھ ہی ہر طالب علم کو میرٹ کی بنیاد پر تکنیکی و اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔‘‘
پاکستان نے اس عالمی قراردار کی اس وقت حمایت کی تھی جب 10دسمبر 1948ء کو جنرل اسمبلی نے اس کی توثیق کی تھی۔
خیبرپختونخوا کے محکمۂ سماجی بہبود کی جانب سے خصوصی تعلیم کے حوالے سے جاری کی گئی سالانہ رپورٹ 2013-14ء کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا میں قوتِ سماعت و گویائی سے محروم بچوں کے لیے 14سکول قائم ہیں جہاں 1345طالب علم زیرِتعلیم ہیں جن میں 951طلبا جب کہ 394طالبات ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق صوبے میں خصوصی بچوں کی تعلیم کے لیے 39ادارے قائم ہیں جن میں سے 11بہ ظاہرمعذور نظر آنے والے بچوں کے لیے ہیں، 14قوتِ سماعت و گویائی سے محروم اور 14ہی جسمانی و نفسیاتی عارضوں کا شکار بچوں کے لیے مخصوص ہیں۔
خیبرپختونخوا کی وزیر برائے سماجی بہبود، خصوصی تعلیم ووومن ایمپاورمنٹ ڈاکٹر مہر تاج روگھانی نے اس اَمر کی تصدیق کی کہ قوتِ سماعت و گویائی سے محروم خصوصی بچوں کے لیے مڈل و ہائی سکول قائم نہیں ہیں‘ انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت صوبے میں خصوصی بچوں کے لیے قائم سکولوں کو اَپ گریڈ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں بینائی سے محروم بچوں کے لیے چار ہائی سکول قائم ہیں اور وہ بھی صرف طلبا کے لیے ہیں۔ طالبات کے لیے کوئی مڈل یاہائی سکول موجود نہیں ہے۔
ڈاکٹر مہرتاج روگھانی نے کہا کہ خصوصی بچوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا حل ان کی وزارت کی اولین ترجیح ہے۔
انہوں نے کہا:’’ اس حوالے سے حکومت نے پشاور میں سکلز سنٹر اور ’’تبدیلی سنٹر‘‘ قائم کرنے کے لیے فنڈز مختص کیے ہیں جہاں خصوصی افراد تکنیکی تربیت حاصل کرنے کے علاوہ تعلیم بھی حاصل کرسکیں گے۔‘‘
خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے معذور افراد نے کے لیے رواں برس ملازمتوں کا کوٹہ دو فی صد سے بڑھا کر تین فی صد کر دیا ہے۔
جب ان سے بچوں جیسا کہ حسن خان اور ان کے 13سکول فیلوز کی اعلیٰ تعلیم کے متعلق استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو راتوں رات حل کرنا ممکن نہیں کیوں کہ گزشتہ 68برس سے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت قوتِ سماعت و گویائی سے محروم بچوں کے لیے مخصوص سکولوں کو اَپ گریڈ کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
ڈاکٹر مہر تاج روگھانی نے فون پر نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم نے وزیراعلیٰ سے صوبے میں چار پرائمری سکولوں کو اَپ گریڈ کرنے کے لیے درخواست کی ہے۔‘‘
قوتِ گویائی سے محروم افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے صدر حامد خان نے کہا کہ خصوصی بچوں کے تعلیمی مسائل حل کرنے کے حکومتی دعوے مخلصانہ نہیں ہیں کیوں کہ اس حوالے سے کوئی کوشش نظر نہیں آرہی۔
انہوں نے کہا کہ ہائی سکولوں سے قطؤ نظر صوبائی حکام نے توقوتِ سماعت و گویائی سے محروم خصوصی بچوں کے لیے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران کوئی ایک مڈل سکول بھی قائم نہیں کیا۔
حامد خان نے کہا:’’ قوتِ سماعت و گویائی سے محروم بچوں کا پرائمری کے بعد تعلیمی سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے اور وہ سماج پر بوجھ بن جاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ خصوصی افراد کے لیے تمام سرکاری محکموں میں ملازمتوں کا کوٹہ پانچ فی صدتک کیا جائے۔
دوسری جانب حسن خان کے والدعامر زاد گل نے کہا کہ انہوں نے بہت سے سرکاری حکام سے بات کی ہے کہ وہ لوئر دیر میں خصوصی بچوں کو تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کے لیے اقدامات کریں لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
انہوں نے مایوسی کے عالم میں کہا:’’ میَں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ میرے بچے مجھ سے کہیں کہ وہ ان سکولوں میں داخلہ کیوں نہیں لے سکتے جہاں دوسرے بچے زیرِتعلیم ہیں۔ میرے پاس ان کے ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ وہ کب سکول جانے کے قابل ہوسکیں گے؟‘‘
Dir me ak pramre school hy. Uska b apna belding nhi hy kabi ak jaga to kabi dosri jaga. As school k gadi b aksr kharab hoti hy jes k waja sy an khasosy afrad ko kafi mushkelat ka samna hota. Jaha p ye sachool qayam hy belding antehi naqes hy. Dir me NGO k barmar hy lekn an bacho k taraf koi tawajo nhi degayi hakomat agr khud koch kar nhi sakti to kam az kam NGO k mantring kari k serif shor sharabo sy koch nhi hota haqeqat m kam kari. Q k ye khasose bache hakomat k zemawari hy