پشاور (وصال یوسف زئی سے) 20برس کی سعیدہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں بطور نرس خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وہ اگرچہ یہ ملازمت چھوڑ دینا چاہتی ہیں لیکن فی الوقت ان کے سامنے صرف ایک ہی راستہ باقی بچا ہے کہ وہ حالات کے ساتھ کمپرومائز کرلیں۔ ایک بدقسمت رات کو انہوں نے جب ایک مریض کی حالت بگڑنے پر نائٹ شفٹ پر موجود ڈاکٹروں میں سے ایک کو بلایا تو اس نے سعیدہ کو جنسی طور پر ہراساں کیا، اس دن کے بعد سے اس کے لیے زندگی کا مفہوم یکسر تبدیل ہوگیا ہے۔
سعیدہ نے خوف زدہ لہجے میں کہا:’’ میں اس رات مریض کی حالت کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے ڈاکٹرز کے دفتر گئی جس نے کمرے کا دروازہ بند کرلیا اور ہراساں کرنے لگا۔ وہ مجھ سے زیادتی نہیں کرسکا کیوں کہ میں کسی نہ کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’میَں نے اس بارے میں ہیڈ نرس سے شکایت کی جنہوں نے خاموشی رہنے کا مشورہ دیا۔ شعبۂ نرسنگ سے منسلک ہر نرس نے مجھ سے ڈاکٹر کے ساتھ مصالحت کے لیے کہا‘ ان کا خیال تھا کہ اگر میں شکایت کرتی ہوں تو نہ صرف اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھوں گی بلکہ میری ساکھ بھی متاثر ہوگی۔ ان تمام تر خطرات اور خدشات کے باوجود میرے قدم نہیں ڈگمگائے اور میَں نے مذکورہ ڈاکٹر کے خلاف درخواست جمع کروادی۔ اس درخواست کو اس بنا پر رَد کر دیا گیا کہ میرے پاس اپنے الزامات ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں تھا‘ مجھ سے کہا گیا کہ میں ڈاکٹر کی زبانی معذرت قبول کرتے ہوئے مصالحت کرلوں۔ یوں بالآخردرخواست واپس لینے اور حالات کے ساتھ کمپرومائز کرنے کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔‘‘
سعیدہ ( سکیورٹی وجوہات کے باعث حقیقی نام ظاہر نہیں کیا جارہا) واحد ایسی خاتون نہیں ہیں جنہیں خیبرپختونخوا یا پھر پاکستان میں کام کرنے کی جگہوں پر ہراساں کیا گیا ہو۔ اس کی طرح کی لاکھوں عورتوں کو دفاتر میں ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب یہ حیوان نما انسان ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔وفاقی حکومت کی جانب سے کام کرنے کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کرنے سے تحفظ کے ایکٹ 2010ء کے نفاذ کے بعد بھی ہراساں کرنے کے واقعات کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور سے ہی منسلک ہیڈ نرس بخت بی بی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک نرس جنسی طور پر ہراساں ہونے کے بعد شکایت درج کروانے کی بجائے خوف زدہ ہوتی ہے کہ اگر اس نے ایسا کیا تو اس کی عزت پر حرف آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ مختلف غیر سرکاری تنظیموں جیسا کہ دا حوا لور اور بلیو وائنز نے نرسوں کی تربیت کی ہے کہ وہ ہراساں کیے جانے کی صورت میں کس طرح اپنا تحفظ یقینی بنا سکتی ہیں جس کے بعد سے ہسپتال میں ہراساں کیے جانے کے واقعات میں کمی آئی ہے۔
دا حوا لور کی چیف ایگزیکٹو خورشید بانو جنسی طور پر ہراساں کرنے سمیت اس کی مختلف اقسام کے بارے میں شعور کی بیداری کے لیے سکولوں اور کالجوں کی سطح پراس کی تعلیم لازمی قرار دینے کے لیے حکومت (خیبرپختونخوا) پردباؤ ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ پاکستان میں 77فی صد خواتین مختلف نوعیت کی ملازمتیں کر رہی ہیں جب کہ غیر رسمی شعبہ سے 65فی صد خواتین منسلک ہیں۔ خیبرپختونخوا میں رسمی اور غیر رسمی شعبوں میں 60فی صد عورتیں کام کر رہی ہیں۔ یہ اعداد و شمار تشویش ناک ہیں اور اس قدر بڑی تعداد کو مالکان کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا دانش مندی نہیں ہے۔ ہم کم سے کم خواتین کو تربیت اور تعلیم تو دے سکتے ہیں کہ وہ کس طرح ہراساں کیے جانے سے اپنا تحفظ یقینی بنا سکتی ہیں تاوقتیکہ غیر رسمی شعبہ قانون کے دائرہ کار میں نہیں آجاتا۔‘‘
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن قمر نسیم نے قانون کے نفاذ پر عملدرآمد میں ناکامی پرحکومت پر کڑی تنقید کی، وہ غیر سرکاری تنظیم بلیو وائنز سے منسلک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قانون کی شق 3(1)کے تحت ہر ادارے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایکٹ کے نفاذ کے بعد30روز کے اندر اندر تفتیشی کمیٹی قائم کرے۔ ملک بھر میں سرکاری اور نہ ہی نجی اداروں نے اس شق پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا ہے۔
اس قانون کے تحت ہر ادارے، جن میں وفاقی و صوبائی وزارتیں، محکمے، کارپوریشنز، تعلیمی ادارے، نجی کاروباری اداروں کے علاوہ رجسٹرڈ سول سوسائٹی کی تنظیمیں شامل ہیں،کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک تین رُکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دے جس میں کم از کم ایک خاتون سمیت تین ارکان شامل ہوں جواس حوالے سے موصول ہونے والی شکایات کی ایک ماہ میں تفتیش کرے اور اس کی رپورٹ مصدقہ اتھارٹی کے روبرو پیش کرے جو بعدازاں جرم کی نوعیت کے مطابق شکایات تجویز کرنے کی پابند ہو۔
خورشید بانو کے مطابق 2010ء میں جب یہ قانون منظور ہوا تو خیبرپختونخوا میں صرف ایک برس کے دوران کام کرنے کی جگہوں پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے دو سو مقدمات رپورٹ ہوئے۔ ان کا مزید کہنا تھا:’’ مَیں پریقین ہوں کہ یہ تعداد اب تک کئی گنا بڑھ گئی ہوگی ۔ خواتین ثقافتی پابندیوں کے باعث اس حوالے سے بات کرنے کے ضمن میں ہنوز ہچکچاہٹ کا شکار ہیں جس کے باعث وہ پولیس یاپھر اپنے دفاتر میں قائم تفتیشی کمیٹیوں میں شکایت درج نہیں کرواتیں۔‘‘
خورشید بانو نے کہا کہ پولیس افسروں سے ملاقات کے بعد یہ منکشف ہوا کہ پولیس سٹیشنوں میں جونیئر افسروں کی ایک بڑی تعداد اس قانون کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا:’’ ان جونیئر پولیس افسروں کو تعزیراتِ پاکستان کی شق 509میں ہونے والی اس ترمیم کے بارے میں رہنمائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت جنسی طور پر ہراساں کرنا نہ صرف کام کرنے کی جگہوں پر بلکہ عوامی مقامات اور گھروں میں بھی ایک قابلِ سزا جرم ہے۔‘‘
محکمۂ سوشل ویلفیئر و وومن ڈویلپمنٹ کے سیکرٹری ہدایت جان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا محکمہ ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کے لیے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لا رہا ہے۔ انہوں نے کہا:’’ ان کے محکمہ نے خواتین کوان کے حقوق اور اس نوعیت کے پریشان کن حالات سے نپٹنے کے لیے تربیت فراہم کرنے کے لیے تکنیکی وتربیتی پروگرام شروع کیے ہیں۔‘‘
پشاور میں تین ماڈل پولیس سٹیشن قائم کیے گئے ہیں جن کا تمام تر عملہ خواتین پر مشتمل ہے لیکن فقیرآباد پولیس سٹیشن پشاور کی ایک پولیس افسر زینت بی بی کے مطابق خواتین ان پولیس سٹیشنوں میں بھی جنسی یا کسی بھی طرح کے ہراساں کرنے کے وقوعہ کی رپورٹ درج کروانے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا:’’خواتین کی اکثریت شکایت درج کروانے کے حوالے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے کیوں کہ اس طرح کے حالات میں ان کے خاندان کے ارکان بھی ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔‘‘
خیبرپختونخوا کے وزیرِاطلاعات مشتاق احمد غنی نے نیوز لینز پاکستان سے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے حکومت کے مؤقف کا دفاع کیا:’’ کام کرنے کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے متعلق کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔‘‘
تاہم انہوں نے اس اَمر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہم خواتین میں جرأت کے فقدان اور ثقافتی بندشوں کے باعث ملزموں کے خلاف قانونی و انتظامی کارروائی کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ بہت سے مقدمات میں شواہد تک رسائی حاصل نہیں ہو پاتی کیوں کہ متاثرین یا تو قانونی ٹیموں کی فارنزک شواہدجمع کرنے کے حوالے سے مدد نہیں کرتیں یا پھر وہ اپنی عزت بچانے کی خاطر ان شواہد کو پوشیدہ رکھتی ہیں۔
قانون کی رو سے کام کرنے کی جگہوں پر ہراساں کرنے سے تحفظ کے ایکٹ 2010ء پرصوبوں میں قائم کیے گئے محتسب کے دفاتر کی مدد سے عملدرآمد کیا جاتا ہے لیکن خیبرپختونخوا میں پانچ برس گزر جانے کے باوجود محتسب کا دفتر قائم نہیں کیا جاسکا۔
پراونشل کمیشن آن دی سٹیٹس آف وومن کی سربراہ نیلم تورو نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کی جانب سے محتسب کے لیے تین نام تجویز کرکے خیبرپختونخوا کے چیف سیکرٹری اور وزیراعلیٰ کو ارسال کیے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اب تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاخیر غیر متوقع ہے۔
غیر سرکاری تنظیم مہرگڑھ کی ڈائریکٹر ملیحہ حسین نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کوئی حکومت بھی خواتین کو ان کے حقوق کی فراہمی اوران کے تحفظ کے لیے تشکیل دیے گئے قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے واضح نہیں ہے ۔ حکومت کے لیے ان قوانین کی کوئی اہمیت نہیں ہے جس کے باعث ہم دیکھتے ہیں کہ جب ان قوانین پرعملدرآمد کیا جاتا ہے تو ان میں خامیاں موجود ہوتی ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کو خواتین کے حقوق اور خاص طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت کے اقدامات کو مزید مؤثربنانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا:’’ خیبرپختونخوا حکومت محتسب کا دفتر قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی لیکن میَں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی کہ صوبے میں برسرِاقتدار موجودہ حکومت نے مذکورہ ایکٹ کے نفاذ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے زیادہ مؤثر انداز سے کام کیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے وومن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے سرکاری اور پرائیویٹ تنظیموں کی تربیت اور نگرانی کے لیے مختلف سطحوں پر کئی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔‘‘
ہراساں کیے جانے کی صورت میں خواتین کی جانب سے پولیس میں رپورٹ درج کروائے جانے سے متعلق استفسار پرانہوں نے کہا کہ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث مذکورہ ایکٹ کے تحت ہر ادارے میں اس حوالے سے ایک کمیٹی قائم کرنے کی شق شامل کی گئی ہے تاکہ اس نوعیت کے معاملات کو پوشیدہ رکھا جاسکے اور متاثرہ فریق کو بھی رپورٹ درج کروانے کے لیے پولیس کا رُخ نہ کرنا پڑے۔
ملیحہ حسین کا کہنا تھا:’’ اگرچہ ہم قانون کی روح کا ادراک رکھتے ہیں لیکن ہم اس کے منفی پہلو اجاگر کرتے رہیں گے۔ میں اس نقطۂ نظر سے متفق نہیں ہوں کہ یہ قانون خیبرپختونخوا یا پاکستان میں کہیں پر بھی ناکام ہوا ہے۔ سرکاری اداروں جیسا کہ نادرا اور سٹیٹ بنک آف پاکستان نے نہ صرف اس قانون کواپنے اداروں میں نافذ کیا ہے بلکہ ہراساں کیے جانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے بہت سے مقدمات کی سماعت بھی کی ہے۔‘‘
وہ اس سوچ سے بھی متفق نہیں ہیں کہ خواتین اس قانون کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں اور خاموشی کے ساتھ یہ ظلم وبربریت برداشت کرنا چاہتی ہیں۔
ملیحہ حسین نے مزید کہا:’’اس قانون کے نفاذ کے بعد مہر گڑھ کوکام کرنے کی جگہوں پر ہراساں کیے جانے سے متعلق 36سو درخواستیں موصول ہوچکی ہیں۔ ایسی خواتین، جنہوں نے مہرگڑھ کا رُخ کیا، درخواستوں کو رجسٹرڈ کروانے کے عمل کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتی تھیں یا آغاز سے ہی سہمی ہوئی تھیں۔ہم نے جب ان کی تربیت یا معاونت کی تو وہ درست فورم پر شکایت درج کروانے پر آمادہ ہوگئیں۔عدالتوں میں رجسٹرڈ ہونے والے مقدمات کی تعداد سے یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے۔ 2010ء میں جب یہ قانون منظور ہوا تو1947ء کے بعد سے عدالتوں میں تعزیراتِ پاکستان کی شق 509کے تحت صرف تین مقدمات رجسٹرڈ ہوئے تھے۔ تعزیراتِ پاکستان کی شق 509ء میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد 2010ء سے 2015ء کے دوران 50مقدمات رپورٹ ہوئے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ممکن ہے یہ اعداد و شمار متاثر کن نہ ہوں لیکن اگر ان کا موازنہ گزشتہ ادوار سے کیا جائے تو یہ ایک بڑی کامیابی معلوم ہوتی ہے۔
ملیحہ حسین نے کہا:’’ میَں اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہوں کہ اس حوالے سے عوام میں شعور کی بیداری کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘