پشاور ( اسد خان سے) نزاکت اس وقت 11برس کی تھی جب اس کے باپ نے اس کی شادی ایک قریبی عزیز سے کردی۔ وہ اگرچہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہے لیکن اس کے باوجود اس وقت تک وہ ایک بچی تھی جسے گڑیوں سے کھیلنا پسند تھا۔
نزاکت نے کہا:’’ میری شادی اس وقت ہوئی جب بچے کھیل کود میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ میرے عزیز جو مجھ سے محبت کرتے تھے‘ انہوں نے میرے والد کو قائل کیا کہ وہ میرا خیال رکھیں گے۔ میرے والد چوں کہ معذور تھے اوربھائی کم عمر تھے جس کے باعث وہ کوئی کام کاج نہیں کرسکتے تھے چناں چہ جب میرے عزیز نے شادی کا پیغام بھیجا تو اسے قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا گیا۔‘‘
نزاکت کے اب چار بچے ، تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ اس نے کہا کہ شادی کے تین برس بعد اس کے خاوند نے اس سے لڑائی جھگڑاکرنا شروع کر دیا ‘ وہ اسے ہر روز تشدد کا نشانہ بنایا کرتا۔ اس کا مزید کہنا تھا:’’ مجھے میرے کمرے میں قید کر دیا گیا۔ کئی مہینوں تک یہ قید کاٹی‘ کمرے سے باہر نکل سکتی تھی اور نہ ہی اس کی اجازت تھی۔‘‘
ان دنوں ہی نزاکت کے خاوند نے گھر سے باہر رہنا شروع کردیا۔ اس وقت اس پر منکشف ہوا کہ اس کے خاوند نے ایک اور لڑکی سے شادی کر لی ہے۔ جب نزاکت نے اس سے اس بارے میں لڑائی کی تو اس نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور طلاق دے ڈالی۔
وہ اپنے بچوں کے ساتھ باپ کے گھر واپس لوٹ آئی۔ اس کا باپ ادھیڑ عمر اور معذور تھا اور بھائی کم عمری کے باعث محنت مزدوری نہیں کرسکتے تھے۔ نزاکت نے کہا کہ اس کے سامنے صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ ملازمت کرکے اپنے بچوں کی کفالت کرتی۔ یہ وہ فیصلہ کن مرحلہ تھا جب وہ اور اس کی بہنوں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
وہ اب اپنی دو چھوٹی بہنوں کے ساتھ پشاور کی ایک قدیم اور رہائشی آبادی ہشت نگری میں کرایے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہائش پذیر ہے۔ وہ اور اس کی بہنیں روزانہ طویل فاصلہ طے کرکے حیات آباد کے صنعتی علاقے میں قائم ایک میڈیسن فیکٹری میں کام کے لیے جاتی ہیں‘ پشاور کے مغربی کنارے پرقائم یہ آبادی قبائلی علاقوں سے متصل ہے۔
نزاکت اور اس کی بہنوں کے لیے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی سے متصل قصبے شبقدرسے اپنا گاؤں اور گھر چھوڑنا آسان نہیں تھا کیوں کہ ان علاقوں میں عورتیں شاذ و نادر ہی اپناگھر چھوڑتی ہیں۔ خواتین کا یہ عمل پشتون معاشرے کی روایات کے منافی خیال کیا جاتا ہے جہاں خواتین کے گھروں سے دوراور تنہا رہنے پر بہ ظاہر پابندی ہے اور خاص طور پر شہر میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا تو تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔
نزاکت نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میری بہن اور میَں نے کبھی سکول کا منہ تک نہیں دیکھا۔ شبقدر تحصیل میں خواتین کی تعلیم کا کوئی تصور نہیں ہے ۔یہ وہ وجہ ے جس کے باعث ہم ماہانہ پانچ ہزار روپے قلیل تنخواہ پر بھی ملازمت کرنے کے لیے آمادہ ہوگئیں۔ اس سے ضروریات تو پوری نہیں ہوتیں لیکن ہم کریں تو کیا کریں۔‘‘
نزاکت اور اس کی بہنیں، خیبرپختونخوا ڈائریکٹوریٹ آف لیبر کے اعداد و شمار کے مطابق، ان 30ہزار خواتین میں شامل ہیں جو صوبے میں قائم 775فیکٹریوں میں کام کر رہی ہیں۔ حیات آباد کے صنعتی علاقے میں، جہاں نزاکت اور اس کی بہنیں کام کرتی ہیں، پانچ ہزار لڑکیاں میڈیسن، ماچس اور ٹشو پیپر بنانے والی فیکٹریوں میں کام کر رہی ہیں۔
ان خواتین کی عمریں 15سے 35برس کے درمیان ہیں کیوں کہ فیکٹری مالکان کی جانب سے اس سے بڑی عمر کی خواتین کو ملازمت دیے کے حوالے سے اجتناب برتا جاتا ہے کیوں کہ فیکٹریوں میں سخت محنت کروائی جاتی ہے۔
کلثوم ایک میڈیسن فیکٹری میں گزشتہ چار برسوں سے ملازمت کر رہی ہیں اور کوہاٹ روڈ پشاور سے روزانہ حیات آباد جانے کے لیے ایک طویل فاصلہ طے کرتی ہیں‘ وہ کہتی ہیں کہ فیکٹری مالکان کا ملازمین کے ساتھ رویہ انتہائی ناروا ہوتا ہے۔
23برس کی کلثوم کہتی ہیں:’’ وہ ہم سے انتہائی برا سلوک کرتے ہیں۔ ان فیکٹریوں میں کام کرنے والی لڑکیاں غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی اکثریت اپنا کفیل جیساکہ والد یا شوہر کھوچکی ہیں یا پھر وہ منشیات کے عادی ہیں۔‘‘
کلثوم نے مزید کہا کہ اگر مرد یا خاتون مشین پر کام کرتے ہوئے زخمی ہوجاتی ہے توفیکٹری کی جانب سے ان کوکوئی طبی امداد فراہم نہیں کی جاتی یا دوسری صورت میں انتظامیہ کی جانب سے اس ضمن میں پہلوتہی برتی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران ان کی تنخواہ میں صرف ایک بار اضافہ ہوا اور وہ بھی صرف ایک ہزار روپے بڑھی جوا ن کی ضروریات پورا کرنے کے حوالے سے ناکافی ہے۔ انہوں نے کہا:’’ جب کبھی لیبر انسپکشن ٹیم فیکٹری کا دورہ کرتی ہے تو مالکان ہم پر زیادہ تنخواہیں بتانے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔‘‘
پشاور کے علاقے گلبہار سے تعلق رکھنے والی رابعہ حیات آباد کی انڈسٹریل اسٹیٹ میں اپنی دو بہنوں کے ساتھ کام کیا کرتی تھیں۔وہ گزشتہ نو ماہ سے سانس کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باعث بسترِ علالت پر ہیں۔ رابعہ کے والد وفات پاچکے ہیں جب کہ ان کے دو کم عمر بھائی ہیں جو ایک آٹو ورکشاپ پر مزدوری کرتے ہیں۔
رابطہ نے کہا:’’ ان نو ماہ میں کسی نے ان کی خیریت تک دریافت نہیں کی۔‘‘
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں محنت کش طبقہ میں صنفی عدم مساوات تشویش ناک ہے، 2009ء سے 2012ء کے درمیان 80فی صد مردجب کہ صرف 20فی صد خواتین ملازمت کر رہی تھیں۔
پاکستان کے شمالی و قبائلی علاقوں میں مذہبی و ثقافتی رسوم و رواج کے باعث خواتین گھروں کی چار دیواری میں مقید رہتی ہیں اور بیوی، والدہ اور گھر کی منتظم کے روایتی کرداروں سے باہر نکل کر کچھ کرنے سے قاصرہوتی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایسی ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد انتہائی کم ہے جو انتظامی ملازمت کر رہی ہیں، حتیٰ کہ تعلیم یافتہ خواتین بھی سرکاری ملازمت نہیں کرسکتیں کیوں کہ اس حوالے سے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
پاکستان کے معاشی سروے 2013-14ء کے مطابق خواتین کی ایک بڑی تعداد روایتی غیر رسمی شعبوں سے منسلک ہے‘وہ گھریلو ملازماؤں یا قلیل معاوضوں و دیہاڑی دار پیشوں سے منسلک ہیں، مثال کے طور پر وہ باورچی یا صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہیں جنہیں صاحبِ ثروت خاندان روایتی طور پر انتہائی کم معاوضہ ادا کرتے ہیں۔
دوسری جانب دفتری و انتظامی ملازمتوں سے منسلک خواتین کی شرح دو فی صد سے بھی کم ہے۔ ان کی بڑی تعداد طب، بنکنگ، قانون، انجینئرنگ اور بالخصوص شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہے۔
خیرپختونخوا کے محکمۂ انڈسٹریز، کامرس و لیبر کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہدایت اللہ خان نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی نے 2013ء میں سات قوانین منظور کیے جن میں خیبرپختونخوا پے منٹ آف ویجز ایکٹ 2013ء، خیبرپختونخوا میں کم از کم تنخواہوں کا ایکٹ 2013ء ، خیبرپختونخوا فیکٹریز ایکٹ 2013ء، خیبرپختونخوا میٹرنٹی بینیفٹس ایکٹ2013ء، خیبرپختونخوا ورکرز کمپنسیشن ایکٹ 2013ء،خیبرپختونخوا انڈسٹریل اینڈ کمرشل ایمپلائمنٹ (سٹینڈنگ آرڈرز) ایکٹ2013ء اور خیبر پختونخوا صنعتی شماریاتی ایکٹ 2013ء شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں رجسٹرڈ فیکٹریوں کی تعداد 781ہے جن میں 54485مرد و خواتین محنت کش کام کررہی ہیں۔ ہدایت اللہ خان نے کہا کہ فیکٹری ملازمین کی کم از کم تنخواہ 10ہزار روپے مقرر کی گئی ہے اور فیکٹریوں کو پابندکیا گیا ہے کہ وہ ملازمین کو ایک وقت کا کھانا، دو وقت چائے اور طبی سہولیات فراہم کریں۔
انہوں نے کہا کہ محکمۂ لیبر فیکٹریوں کا باقاعدگی سے معائنہ کرتا ہے جب کہ ملازمین کی ضروریات کو پورا نہ کرنے والے مالکان کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آگاہی نہ ہونے کے باعث ملازمین شکایت درج نہیں کرواتے۔ ہدایت اللہ خان نے تجویز دی کہ ملازمین یونین تشکیل دے کر یا پھر اس میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں جس کے بعد وہ لیبر ڈائریکٹوریٹ سے کسی بھی قسم کی شکایت کی صورت میں رابطہ قائم کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ ہم فیکٹریوں کا رُخ کریں گے‘ ملازمین کی شکایات سے آگاہی حاصل کریں گے اور ایک ہفتے کے اندر اندر کارروائی کی جائے گی ۔‘‘