فیصل آباد: جرمن شہری کا اغوا‘ خاندان بازیابی کے لیے کوشاں

0
4878

فیصل آباد( علی رضا سے) لیبیا میں پیدا ہونے والے20برس کے جرمن شہری محمد دین کو سات فروری 2015ء کو افغانستان سے طالبان سے منسلک ایک عسکریت پسند گروہ نے اغوا کرلیا۔ ان کا خاندان ان کی بازیابی کے لیے ہنوز کوشاں ہے لیکن ان کی یہ تمام تر کوششیں لاحاصل رہی ہیں کیوں کہ عسکریت پسند نہ صرف50لاکھ روپے تاوان طلب کر رہے ہیں بلکہ اغوا کی اس واردات کے بعد حراست میں لیے گئے اپنے چار ساتھیوں کی بازیابی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ 
فیصل آباد کے دیہی علاقے چک 65جی بی ٹھیکری والہ کے رہائشی مبشر (محمد دین کے چچا) نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ان کا بھتیجا محمد دین’’آٹھ جنوری 2015ء کو اپنی والدہ کے ساتھ پہلی بار پاکستان آیا اور اس کا پاکستان میں کوئی دوست نہیں ہے ‘ انہوں نے 16فروری 2015ء کو جرمنی واپس لوٹنا تھا کیوں کہ ان کی ٹکٹس کنفرم ہوچکی تھیں۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے مزید کہا:’’ محمد دین کی اپنے قیام کے دوران مبشر( ایک دیہاتی) کے ساتھ دوستی ہوگئی ۔ اس کے اغوا کے بعد ہم پر منکشف ہوا کہ وہ عسکریت پسندوں کا سہولت کار تھا اور پولیس و قانون نافذ کرنے والے ادارے اس حقیقت سے باخبر تھے۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا:’’ بعدازاں محمد دین کے موبائل فون کے ڈیٹا سے یہ ظاہر ہوا کہ مبشر نے محمد دین کو 17بار کال کی تھی اور آخری کال بھی اسی شخص کی تھی جو ایک مخصوص موبائل نمبر محمد دین کے ساتھ رابطے کے لیے استعمال کرتارہا تھا۔‘‘
مبشر(چچا) کی درخواست پر ٹھیکری والہ پولیس نے 10فروری 2015ء کو اغواء کا مقدمہ درج کرلیا اور مبشر، اس کے بھائی عطاء الرحمان، دو دوستوں ارشد سعید اور نواز احمد کو حراست میں لے لیا۔
مبشر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے مزید کہا:’’ پولیس نے ملزموں نے تفتیش کرنے کے بجائے ان کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے جہاں سے وہ ضمانت حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کے خاندان کے ارکان کو مقدمے کی پیروی کرنے کے باعث دھمکایا جارہا ہے لیکن وہ محمد دین کی بازیابی کے لیے ہر کوشش کرنے کے حوالے سے پرعزم ہیں۔‘‘
مبشر نے آنسو بہاتے ہوئے کہا:’’ میرے بھائی محبوب، جو کہ خود پولیس کانسٹیبل ہیں، پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا۔ وہ قریب ہی بہہ رہی ندی میں چھلانگ لگا کر اپنی جان بچانے میں بہ مشکل کامیاب ہوپائے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرنے کی بجائے ہم سے اس پورے وقوعے کے بارے میں تفتیش کرنا شروع کر دی اور محبوب سے یہ استفسار کیا کہ وہ کس طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوا‘ حملہ آوروں کا نشانہ کیوں چوکا اور گولیاں ان کی موٹر سائیکل پر ہی کیوں لگیں۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا:’’ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مدد کرنے کی بجائے ہراساں کر رہے ہیں اور یہ مؤقف اختیار کررہے ہیں کہ ہم مقدمہ واپس لے لیں کیوں کہ ان کا بھتیجا اپنی مرضی سے افغانستان گیا ہے۔‘‘
مبشرنے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا:’’ ایک ایسا شخص جہاد کے لیے افغانستان کس طرح جاسکتا ہے جس کا مذہب کے بارے میں علم واجبی سا ہو؟ ملزموں نے اس سے رابطے کے لیے صرف ایک موبائل کنکشن ہی کیوں استعمال کیا؟‘‘
خاندان کے ایک رُکن نے، جو سرکاری اہل کار بھی ہیں، نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ علاقے کے معززین کی اس حوالے سے کچھ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ملزموں نے محمد دین کی واپسی کا وعدہ کیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے ساتھ ہے جو اسے قبل ازیں بلوچستان کے شہر دلبندین لے کر گئے اور اب جہاد کے لیے جلد داعش میں شمولیت اختیار کرلے گا۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے مزید کہا:’’ ملزموں کی جانب سے معززین کے روبرو یہ اقرار نامہ جمع کروایا گیا ہے کہ محمد دین جلد گھر واپس آجائے گا۔ یہ اقرارنامہ مقدمے کی فائل کا حصہ بنانے کے لیے پولیس کے حوالے کیا گیا لیکن اس وقت حیرت ہوئی جب یہ اقرار نامہ مقدمے کی فائل میں موجود نہیں تھا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’پولیس اس مقدمے کی پیروی کے ضمن میں دباؤ کا شکار دکھائی دیتی ہے جب کہ متعلقہ اداروں کو وہ تمام شواہد فراہم کر دیے گئے ہیں جن سے محمد دین کے اغوا کے ہمارے دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے۔‘‘
انہوں نے عسکریت پسند کمانڈر ابراہیم کے بیان کا حوالہ دیا:’’ ہم نے تو اپنے مہمان ( بالواسطہ طور پر اسامہ بن لادن کا حوالہ دیتے ہوئے) کے تحفظ کے لیے ہزاروں لوگوں کی قربانی دی لیکن انہیں کسی کے حوالے نہیں کیا۔‘‘
مذکورہ اہل کار نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا:’’ ابراہیم افغانستان سے براہِ راست ملزموں کے ساتھ رابطے میں ہے‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اس حوالے سے شواہد موجود ہیں۔ قبل ازیں ابراہیم نے چار گرفتار ملزموں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا اور اب50لاکھ روپے تاوان ادا کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here