پشاور (انعام اللہ سے)پشاور کے عمران علی روزانہ پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی دوسرے مسافر کی طرح صوبہ خیبرپختونخوا میں پبلک ٹرانسپورٹ کومنظم کرنے کے نظام کے منفی اثرات سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔
انہوں نے کہا: ’’ مختلف روٹس پر چلنے والی بسوں کی تعداد ناکافی ہے اور بسوں یا ویگنوں میں مسافروں کے کھڑے ہونے تک کی گنجائش نہیں ہوتی۔ خواتین مردوں کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ بس اسی وقت منزل کی جانب گامزن ہوتی ہے جب ڈرائیور کی مرضی ہو۔ اگر ان کی خواہش ہو تو وہ 14مسافروں کی کوچ میں 18مسافر بٹھا لیتے ہیں۔ وہ ہر اس جگہ سٹاپ کرتے ہیں جہاں ان کا جی چاہتا ہے۔ کوچوں کی ایک بڑی تعداد میں ایئرکنڈیشن نہیں ہے چناں چہ موسمِ گرما کے دوران آپ ہماری اذیت کا اندازہ بہتر طور پر لگا سکتے ہیں۔‘‘
ایک اور مسافر نور محمد، جو روزانہ حاجی کیمپ ٹرمینل جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ ٹرمینل پر کوئی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ پینے کا پانی، بیت الخلا یا کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں ہے جس کے باعث پلیٹ فارم پر ہر جانب غلاظت کا ڈھیر نظرآتا ہے جس کی وجہ سے سانس لینا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔
میڈیا میں آنے والی مختلف رپورٹوں کے مطابق سینئر سپرنٹنڈنٹ ٹریفک پولیس پشاورکا کہنا تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال ہونے والی آٹھ ہزار گاڑیاں انتہائی پرانی ہیں۔ انہوں نے کہاتھا کہ قانون کی رو سے نو برس سے زائد پرانی گاڑیاں درجۂ اول کی سڑکوں پررواں دواں نہیں ہوسکتیں‘ 11برس سے زائد پرانی گاڑیاں درجۂ دوم کی سڑکوں جب کہ 15برس سے پرانی گاڑیوں کے درجۂ سوم کی سڑکوں پر آنے پر ممانعت ہے۔ سڑکوں کی درجہ بندی ٹریفک کے بہاؤ اور دیگر عوامل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔
پشاور میں بسوں کے چار ٹرمینل ہیں جو حاجی کیمپ، چارسدہ، کوہاٹ اور کارخانو میں ہیں۔ حاجی کیمپ کا ٹرمینل سب سے بڑا ہے۔ پشاور اور صوبے کے وسطی اور شمالی علاقوں میں جانے کے لیے بسیں اسی ٹرمینل سے چلتی ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا کے صدر خان زمان آفریدی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یہ ٹرمینل کنٹریکٹرز کو لیز پر خاصی بڑی رقم کے عوض دیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کنٹریکٹرز کی جانب سے ان ٹرمینلوں کے انتظامی امور کی نگرانی کرناغالباً بھول چکی ہے۔
خان زمان آفریدی نے مزید کہا:’’ حکومت نے حاجی کیمپ ٹرمینل 28کروڑروپے میں لیز پر دیا تھا لیکن آپ اس کی حالتِ زار دیکھئے۔ ٹرمینل کے بہت سے حصے ایسے بھی ہیں جہاں بجلی تک دستیاب نہیں ہے۔ کوئی انتظار گاہ نہیں ہے۔ سیوریج کا نظام عموماً خراب رہتا ہے چناں چہ جب بارشیں ہوتی ہیں تو مسافروں کو نہ صرف گندے پانی میں کھڑے ہوکے بسوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے بلکہ بدبو بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔‘‘
متحدہ ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے صدر نور محمد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1999ء کے بعد سے حکومت نے نہ صرف پشاور کے ٹرانسپورٹ سسٹم پر توجہ دینا چھوڑ دیا ہے بلکہ بس ٹرمینل بھی نظرانداز کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ جب چار کروڑ مالیت کے ٹرمینل کو لیز پر 28کروڑ روپے میں دیا جائے گا تو کنٹریکٹر ٹرانسپورٹرز کا خون چھوسے گا جو اپنا نقصان مسافروں سے پورا کرے گا۔‘‘
ان ٹرمینلوں کی مینجمنٹ کی ذمہ داری سٹی گورنمنٹ کی ہے۔
جب نیوز لینز پاکستان نے پشاور کے ڈپٹی کمشنر ریاض محسود سے رابطہ کیا، جو ان ٹرمینلوں کے معاملات کے ذمہ دار ہیں، تو انہوں نے یہ عذر تراشا کہ انہیں نہ ہی مسافروں کی جانب سے کبھی کوئی شکایت موصول ہوئی ہے اور نہ ہی سٹیک ہولڈرز نے اس جانب توجہ مبذول کروائی ہے جس کے باعث وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چیزیں درست سمت میں بڑھ رہی ہیں۔
میونسپل کارپوریشن پشاور کے ایڈمنسٹریٹر سید ظفر علی شاہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان چاروں بس ٹرمینلوں کو خستہ حال قرار دیا جاچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان ٹرمینلوں کی حالت بہتر بنانا انتہائی اہم ہے کیوں کہ تقریباً 4,500بسیں روزانہ ان ٹرمینلوں پر آتی ہے جس کے باعث پشاور کے پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کا انحصار ان پر ہی ہے۔
عوام کی سفری سہولیات کے حوالے کی گئی پری فزیبیلٹی تحقیق سے منکشف ہوتا ہے کہ ٹریفک کا مسئلہ اہلیانِ پشاور کے چند بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافے کے باعث ٹریفک سے متعلقہ مسائل ناقابلِ حل ہوتے جارہے ہیں۔
ہاؤس لسٹنگ رپورٹ 2011ء کے مطابق 1998ء سے 2011ء کے دوران صوبہ خیبرپختونخوا کی آبادی میں 51.6فی صد اضافہ ہوا ۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ٹرانسپورٹ سلیمان خان نے نیوز لینز پاکستان سے پی ٹی آئی کے شہر میں اربن ٹرانسپورٹ سسٹم کو منظم کرنے‘ اس حوالے سے منصوبہ بندی کرنے اور باہمی رابطوں کو فروغ دینے کے لیے پشاور اربن موبیلیٹی اتھارٹی قائم کرنے کے فیصلے کے بارے میں بات کی۔
پریس رپورٹوں کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت نے12ارب روپے سے 25کلومیٹر طویل چمکانی، حیات آباد ماس ٹرانزٹ پراجیکٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس منصوبے کے لیے ایشین ڈویلپمنٹ بنک فنڈز فراہم کرے گا۔