بنوں( احسان داوڑ سے) عبدالرحمان درپاخیل پرامید ہیں کہ شمالی وزیرستان اور فاٹا کے دیگر قبائلی علاقوں میں ایک روز موسیقی کا احیاضرور عمل میں آئے گا۔
انہوں نے کہا:’’ شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز جس طرح بنوں میں موسیقی کی تقریبات کا انعقاد کرر ہے ہیں ‘ موسیقی و رقص کی تقریبات میں شریک ہورہے ہیں‘ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ رجحان شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد بھی جاری رہے گا۔‘‘
عبدالرحمان درپاخیل کو اُس وقت شمالی وزیرستان چھوڑنا پڑا تھا جب طالبان نے گلوکاروں اور موسیقاروں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
وہ اپنی زندگی اور ٹیلنٹ کو طالبان کے شدت پسند نظریات کی بھینٹ چڑھنے سے بچانے میں کامیاب رہے۔ طالبان کی جانب سے موسیقی کی مذمت میں آنے والے بیانات کے بعد بہت سے موسیقاروں اور گلوکاروں نے اپنے فن سے کنارہ کشی اختیار کرلی لیکن وہ اُس وقت بھی موسیقی میں نئے تجربے کر رہے تھے۔
طالبان فاٹا میں موسیقی پر پابندی عاید کرچکے ہیں۔ انہوں نے موسیقی کی دکانوں کو جلا ڈالا اور خاص طور پران لوگوں کو نہ صرف تشدد کیا بلکہ بہت سوں کو مار بھی ڈالا جنہیں انہوں نے موسیقی سنتے یا پھر موسیقی کی کسی بھی صنف کی تعریف کرتے ہوئے دیکھا تھا۔صرف موسیقی ہی نہیں‘شاعری پر بھی ان کا ردِعمل کچھ مختلف نہیں تھا۔
عبدالرحمان درپا خیل نے کہا:’’ میں طالبان کی ہٹ لسٹ پر تھا۔ انہوں نے مجھے بارہا خبردار کیا کہ میں موسیقی چھوڑ دوں۔ میں یہ کس طرح کرسکتا تھا؟ موسیقی کے بغیر میرا جیون بے معنی ہوجاتا چناں چہ میں نے اپنا گھر بار چھوڑا اور بنوں آگیا۔ یہ وہ واحد طریقہ تھا جس کے ذریعے میں اپنا فن بچا سکتا تھا۔ اگر میں شمالی وزیرستان میں رہ رہا ہوتا تو اب تک مارا جاچکا ہوتا۔‘‘
مئی 2006ء میں ایک طالبان نواز عسکریت پسند مبلغ نے شمالی وزیرستان میں موسیقی اور ویڈیو شاپس پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
عبدالرحمان درپاخیل نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پشتون موسیقی پسند کرتے ہیں لیکن وہ اپنے بچوں کو یہ پیشہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
انہوں نے کہا:’’ یہ حالات میرے لیے انتہائی مشکل ہیں۔ ایک جانب طالبان ہیں تو دوسری میرے اپنے لوگ ہیں۔‘‘
ان کا خاندان دس ارکان پر مشتمل ہے اور موسیقی آمدن کا واحد ذریعہ ہے جس کے باعث وہ حقیقتاً انتہائی مشکل سے اپنی اور اپنے خاندان کی گزر بسر ممکن بنا رہے ہیں اور حکومتی امداد کی ضرورت محسوس کرتے ہیں لیکن اب تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
انہوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا:’’ میں اپنے بیٹے کی داخلہ فیس جمع نہیں کروا سکتا تھا کیوں کہ میں اپنا سب کچھ شمالی وزیرستان چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ عبدالرحمان درپا خیل نے مزید کہا کہ حد تو اس وقت ہوگئی جب گزشتہ دورِ حکومت میں عوامی نیشنل پارٹی نے بھی موسیقی اور موسیقاروں کے تحفظ کے حوالے سے بے حسی کا مظاہرہ کیا ۔
حکومت کی جانب سے سرپرستی نہ ہونے کے باعث بہت سے گلوکاروں نے موسیقی کو خیرباد کہہ دیا ہے تاکہ جسم و روح کا تعلق قائم رکھ سکیں۔
شاعر اور مصنف صابر داوڑ کہتے ہیں کہ طالبان نے ان کے سماج کو بدترین طور پر تباہ کیا ہے۔ موسیقی اور خاص طور پر لوک موسیقی شمالی وزیرستان کے باسیوں کے لیے امن اور شانتی کا ذریعہ تھی لیکن عسکریت پسندی کے باعث ہمارے خطے سے وہ سب ختم ہوگیا جوامید کی ایک کرن بن سکتا تھا۔
پشاور یونیورسٹی کے گریجویٹ طارق خان داوڑ نے کرب کے ساتھ ان یادوں کو تازہ کیا جب میر علی بازار میں ہر طرف موسیقی کی گونج سنائی دیتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے خطے پر پنجے جمانے سے قبل تک کا عرصہ بہت بہتر تھا۔
طارق خان داوڑ نے یاد کرتے ہوئے کہا:’’ ہم موسیقی کے اوپن ایئر کنسرٹ کیا کرتے۔ ہر ایک کو ڈرم کی تھال پر رقص کرنے کی اجازت تھی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ڈرم کو مقامی طور پر ڈھول کہا جاتا ہے جس کی ایک خاص ثقافتی اہمیت ہے اوریہ موسیقی کا ایک اہم ساز ہے۔
تاہم بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو موسیقی کے خلاف طالبان کے دلائل کو درست خیال کرتے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے رہائشی محمد سعید کا یہ ماننا ہے کہ اسلام میں موسیقی حرام ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ موسیقی اور شاعری کی ثقافت کا خاتمہ مثبت اقدام ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ہم مسلمان ہیں اور اسلام کسی بھی ایسی سرگرمی میں شامل ہونے سے روکتا ہے جو انسان کو سحر زدہ کردے ‘ اور موسیقی بھی کچھ ایسا ہی کرتی ہے۔‘‘
75برس کے محمد سعید موسیقی کے حوالے سے یکسر مختلف نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ موسیقی تفریح کا ہی ایک ذریعہ نہیں ہے بلکہ محبت، اجتماعیت اور قربت کا باعث بھی بنتی ہے۔ جب لوگ موسیقی سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک ساتھ بیٹھتے ہیں تو وہ ڈرم کی تھال اور گلوکار کی آواز کی گونج میں اپنے اختلافات تک بھلا دیتے ہیں۔ ‘‘
اگر عسکریت پسندی نے شمالی وزیرستان اور فاٹا کے دیگر قبائلی علاقوں سے لوک موسیقی کی صدیوں قدیم روایت کو ختم کیا ہے تو عبدالرحمان درپا خیل کی طرح کے فنکار اُن لوگوں کے لیے موسیقی کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جنہوں نے موسیقی کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کیے۔
عبدالرحمان درپا خیل نے کہا:’’ شمالی وزیرستان کے تقریباً 20گلوکار موسیقی چھوڑ چکے ہیں یا انہوں نے خود کو گلوکاری سے جڑے رکھنے کے لیے نعت خوانی شروع کر دی ہے۔‘‘
شمالی وزیرستان کے ایک نوجوان نے سکیورٹی وجوہات کے باعث نام ظاہرنہ کرنے کی درخواست پر کہا:’’ موسیقی کے سُر ہمارے خون میں گردش کر رہے ہیں اور ہم طالبان یا کسی کے احکامات پر بھی اپنی اس روایت سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرسکتے۔‘‘
شمالی وزیرستان کے باسی جب یہ کہتے ہیں کہ وہ موسیقی کو مرنے نہیں دیں گے تو اس سے نہ صرف ان کے مشکلات کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے بلکہ وہ اس ذریعے کو بھی محفوظ رکھنا چاہتے ہیں جس نے سب کو آپس میں باندھ رکھا ہے۔