خیبرپختونخواکے نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑھنے لگا

0
4309

پشاور (اظہار اللہ سے) صوبہ خیبرپختونخواکے دارالحکومت پشاور میں نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے کام کرنے والی ایک بڑی تنظیم کے مطابق نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
دوست ویلفیئر فاؤنڈیشن کے منیجر مانیٹرنگ و ایویلیو ایشن اعزاز الدین نے کہا:’’ صوبہ میں نشے کے عادی افراد کے لیے علاج معالجہ کی مناسب سہولیات نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نشے کے عادی 16لاکھ افراد کی زندگی خطرات کی زد پر ہے۔‘‘
خیبرپختونخوا میں نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے تمام تر سہولیات سے آراستہ صرف ایک سنٹر کام کر رہا ہے‘ دوست ویلفیئر فاؤنڈیشن 1992ء میں اپنے آغاز کے بعد سے اب تک 26سے 27ہزارنشے کے عادی افراد کاعلاج کرچکی ہے۔ اس کے بحالی مرکز میں ایک وقت میں 350مریض رہ سکتے ہیں۔نشے کے عادی بالغوں کے علاج پر 45سے 75دن جب کہ بچوں کی بحالی پر تین ماہ تک لگ جاتے ہیں۔
دوست فاؤنڈیشن اس وقت منشیات کے عادی 50لڑکوں اور دو سوافرادکا علاج کر رہی ہے جن میں سے15بچے اور0 15افراد ایچ آئی وی ایڈز کا شکار ہیں۔
اعزاز الدین نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ مریضوں کی اکثریت میں ایچ آئی وی مثبت ہے۔ ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی اکثریت افغان مہاجرین اور دیگر ممالک سے ڈیپورٹ کیے گئے شہریوں پر مشتمل ہے۔‘‘
صوبہ خیبرپختونخوا میں منشیات کے عادی افراد کی اس قدر بڑی تعداد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی 2340کلومیٹر طویل سرحد افغانستان سے متصل ہے۔ منشیات آسانی سے اور انتہائی کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے آفس برائے ڈرگز و کرائم (یو این ڈی او سی)کی گزشتہ برس شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 67لاکھ لوگ منشیات استعمال کرتے ہیں جن میں سے 42لاکھ پچاس ہزار کی زندگی کا انحصار ہی منشیات پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق 15سے 64برس کے 80لاکھ سے زائد پاکستانی منشیات استعمال کرتے ہیں جن میں سے 50لاکھ حشیش یا عمومی طور پر معروف چرس کا استعمال کرتے ہیں۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 44ٹن ہیروئن استعمال کی جاتی ہے۔ افغانستان سے براستہ پاکستان سالانہ 110ٹن ہیروئن اور مورفین عالمی منڈیوں میں سمگل کی جاتی ہے۔ 40لاکھ لوگ قنب کا استعمال کرتے ہیں‘ یہ پاکستان میں استعمال ہونے والا سب سے عام نشہ ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق منشیات کے عادی افراد کی اکثریت 25سے 39سال کے درمیان ہے۔ 67لاکھ میں سے 40فی صد غربت و ذہنی دباؤ کے باعث جب کہ باقی لطف حاصل کرنے کے لیے منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ 
مذکور رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کی 74فی صدا فیون افغانستان میں کاشت کی جاتی ہے جس میں سے 40فی صد پاکستان،34فی صد ایران اور باقی روس و وسطی ایشیاء کی دیگر ریاستوں کے ذریعے دنیا بھر میں سپلائی کی جاتی ہے۔ ماہرین یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث خیبرپختونخوا، جو بلوچستان کی طرح ایک سرحدی صوبہ ہے جہاں منشیات استعمال کرنے کا رجحان عام ہے، میں نشے کے عادی افراد کی تعداد زیادہ ہے۔
خیبر پختونخوامیں نشے کے عادی 16لاکھ افراد کے لیے بحالی کے 16مراکزقائم ہیں جن میں سے کچھ مختلف قومی اور عالمی غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے کام کر رہے ہیں۔
منشیات میں حشیش، مورفین، ہیروئن، گلیو وغیرہ شامل ہیں جو پشاور شہراور خاص طور پرافغان سرحد سے متصل خیبر ایجنسی کے قبائلی ضلع کے قریب واقع کارخانو مارکیٹ سے آسانی کے ساتھ اور انتہائی کم قیمت میں دستیاب ہے۔
گزشتہ برس یو این ڈی او سی کی رپورٹ کی لانچنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیرصحت شہرام ترکئی نے اس رپورٹ کو حکام کے لیے ’’خطرے کی گھنٹی ‘‘قرار دیا تھا تاکہ وہ منشیات کی عفریت کے خاتمے کے لیے کام کریں۔ انہوں نے کہا تھا:’’ نوجوانوں میں منشیات کابڑھتاہوا استعمال تشویش ناک ہے۔‘‘
خیبرپختونخوا کے سینئر پولیس افسر محمد علی بابا خیل نے نوجوانوں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کو طلب و رسد سے منسلک کیا ۔انہوں نے کہا:’’ میرا خیال ہے کہ اس کی بنیادی وجوہات میں (منشیات کی) طلب ورسد، والدین اور اساتذہ کا کنٹرول نہ ہونا، انٹرنیٹ تک رسائی اور معاشرے میں بڑھتا ہوا ڈپریشن ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اگرچہ انسدادِ منشیات فورس منشیات کی سمگلنگ اور اس کی دستیابی پر قابو پانے کے لیے تمام تر اقدامات کر رہی ہے لیکن پولیس کو منشیات کے عفریت پر قابو پانے کے لیے ہنوز عوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ مزید برآں انہوں نے کہا کہ تعلیم اور انسدادی تدابیر منشیات کے استعمال کی روک تھام کے ضمن میں انتہائی اہم ہیں۔ 
محمد علی باباخیل نے کہا:’’ میرا خیال ہے کہ منشیات کے استعمال کے تدارک کے لیے بنیادی حکمتِ عملی انسدادی تدابیر اور تعلیم کے نکات کو مدِنظر رکھتے ہوئے تشکیل دی جانی چاہیے۔‘‘
خیبر پختونخوا حکومت نے منشیات کے استعمال کے رجحان پر قابو پانے کے لیے دوست فاؤنڈیشن کی معاونت کے عزم کا اظہارکیا ہے جس کے باعث دوست فاؤنڈیشن اور صوبائی محکمۂ سماجی بہبود مل کر نشے کے عادی افراد کی بحالی کا منصوبہ تشکیل دے رہے ہیں۔
ماضی میں دوست فاؤنڈیشن کے صوبہ کے مختلف علاقوں میں منشیات کے عادی افراد کی تلاش اور ان کی ممکنہ بحالی کے لیے 16علاقائی سنٹر کام کرتے رہے ہیں۔ یہ علاقائی سنٹر بند کیے جاچکے ہیں کیوں کہ فاؤنڈیشن کی جانب سے بنیادی صحت کے سرکاری مراکز کے اہل کاروں کو یہ تربیت فراہم کی گئی ہے کہ وہ نشے کے عادی افراد کی شناخت کرنے کے علاوہ ان کی مدد کریں۔
اعزاز الدین نے کہا کہ حکومت اور دوست فاؤنڈیشن کے تعاون سے مختلف اضلاع میں بنیادی صحت کے مراکز منشیات کے عادی افراد کو مزید علاج کے لیے فاؤنڈیشن بھیجیں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here