لاہور( شہریار ورائچ سے) پاکستان کے آئین میں ہر بچے کو بلامعاوضہ تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اس کے باوجودپانچ سے چھ برس تک کی عمر کے 54لاکھ سے زائدبچے سکول نہیں جارہے۔
یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیاء کے ممالک میں پہلے نمبر پر ہے جہاں سب سے زیادہ بچے سکول نہیں جاتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعداد بڑھ رہی ہے کیوں کہ بچے سکول جانے کی عادت سے کنارہ کش ہوتے جارہے ہیں۔ اس رپورٹ میں سرکاری سکولوں میں فراہم کی جارہی تعلیم کے غیرتسلی بخش ہونے کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
سینئر ماہرِ تعلیم پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیسکو نے 2000-2015ء کے دوران دنیا بھر میں فروغِ تعلیم ، بچوں کی بڑی تعداد کو سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی جانب راغب کرنے، معیارِ تعلیم بہتر بنانے، شرح خواندگی میں اضافے اور پرائمری کی سطح پر طلباء و طالبات کی تعداد یکساں کرنے جیسے اہداف مقرر کیے تھے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ بدقسمتی سے کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں پاکستان فخر کرسکے۔ آپ سیاسی عزم کے بغیر تمام بچوں کو تعلیم کی بلامعاوضہ فراہمی اور تعلیمی معیار بہتر کرنے کے مقاصد کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟‘‘
میڈیا اور تذویراتی ابلاغ کے ماہرین کی ایک ٹیم کی جانب سے فروغِ تعلیم کے لیے شروع کی گئی کمپین الف اعلان کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف پنجاب میں پانچ لاکھ سے زائد بچے سکول نہیں جارہے۔ یہ تعداد ان بچوں پر مشتمل ہے جو سکول تو گئے لیکن بعدازاں تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے پر مجبور ہوگئے۔
الف اعلان کے پروگرام ڈائریکٹر مشرف زیدی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے 62فی صد بچے سکول نہیں جارہے‘ سندھ میں 51فی صد، پنجاب میں 47فی صد اور خیبر پختونخوا میں یہ شرح 43فی صد ہے۔
انہوں نے کہا:’’ پاکستان میں لڑکیوں کے لیے سکول میں تعلیم حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ان لڑکیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جنہوں نے کبھی سکول کا منہ تک نہیں دیکھا۔ حکومت کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی، والدین اور مشہور شخصیات کے تعاون کے بغیر معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانا ناممکن ہے۔‘‘
مشرف زیدی نے مزید کہا:’’ ہم سب لوگ حکومت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ شعبۂ تعلیم کے لیے مزید فنڈز مختص کرے اور ملک کے روشن مستقبل کے لیے بچوں کو تعلیم دینے کے لیے پالیسیاں وضع کرے۔‘‘
2014ء میں پنجاب کے وزیرِ تعلیم رانا مشہود نے ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا تھا کہ صرف ایک برس کے عرصہ کے دوران 35لاکھ بچے سکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہوں گے۔ وہ نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے حکومت کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی دیے۔
انہوں نے کہا:’’ پرائمری کی سطح پرسکول جانے والے طالب علموں کی شرح 80فی صد ہے۔مزیدبرآں ہم پرائمری کی سطح پر زیرِتعلیم بچوں اور بچیوں کی تعداد یکساں کرکے ایک بڑا سنگِ میل عبور کرنے جارہے ہیں۔ پنجاب حکومت نے 46.71ارب روپے تعلیم کے لیے مختص کیے تھے جو کسی بھی دوسرے صوبے سے زیادہ ہیں جس سے حکومت کی اس اہم شعبہ کی ترقی کے حوالے سے سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔‘‘
ادارۂ تعلیم و آگاہی کے چیئرمین ڈاکٹر نعیم حمید نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ حکومت مسائل کے حل کے لیے مؤثر پالیسیاں بنانے کی جانب توجہ مبذول نہیں کررہی جس کے باعث والدین اپنی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکول داخل نہیں کرواتے۔ تعلیمی نظام میں ایسی خامیاں موجود ہیں جن کے باعث بچے سکول نہیں جاپاتے۔‘‘
سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور سماج کے اس اہم شعبہ کے حوالے سے موجودہ تعلیمی نظام اور حکومتی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ یکساں نظامِ تعلیم، اساتذہ کے لیے تنخواہوں کے بہتر سکیل، فیکلٹی کی تربیت کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹرینرز، وقت کی ضرورت کے مطابق نصاب، غربت میں کمی اور روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرنے کے علاوہ والدین کواپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے مختلف کمپینز چلائے جانے جیسی پالیسیاں ایک تعلیم یافتہ اور سائنسی ذہن رکھنے والے سماج کی تشکیل میں حقیقتاً مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔‘‘
چودھری محمد سرورنے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے مزید کہا:’’یہ بدقسمتی ہے کہ کوئی اس مسئلے کے حل کی جانب توجہ نہیں دے رہا جو قوم کو بدترین تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ ہم سڑکوں کی تعمیر پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جب کہ ان پہلوؤں کو نظرانداز کررہے ہیں جو کسی قوم کے انسانی وسائل کی ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ یہ اَمر باعث افسوس ہے کہ بجٹ میں مختص کے جانے والے فنڈز شعبۂ تعلیم پر خرچ نہیں کیے جارہے ۔ سول سوسائٹی اور عوام کو آواز بلند کرنی چاہیے کہ ان کو سڑکوں، انڈرپاسز اور پلوں کی بجائے بہتر معیارِ تعلیم اور صحت کے نظام کی ضرورت ہے۔‘‘