پشاور( انعام اللہ سے) خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور کے چھاتی وارڈ کے باہر 38برس کے قادر سیال پلاسٹک کی شیٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ان کی والدہ چھاتی کے انفیکشن سے متاثر ہوئی ہیں۔انہوں نے دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’وہ چھاتی کے کینسر کا شکار ہیں اور ان کو خاص توجہ کی ضرورت ہے لیکن ڈاکٹروں کی جانب سے لاپرواہی برتی جارہی ہے۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی والدہ کی بیماری کی تشخیص میں ڈاکٹروں کو تین روز لگ گئے جس کے باعث ان کی حالت مزید بگڑ گئی۔
وہ کسی بھی دوسرے تیماردار کی طرح ہسپتال میں پھیلی ہوئی آلودگی سے پریشان ہیں جس سے ان کی والدہ کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ قادر سیال نے استفسار کیا:’’ کیا آپ نے ہسپتال کی حالت دیکھی ہے ؟ہر طرف سیوریج کی بدبو پھیلی ہوئی ہے‘ مچھرٹھہرے ہوئے پانی کے اردگرد چکر کاٹ رہے ہیں‘ ہسپتال سے کچراتک نہیں اٹھایا گیا‘ ہسپتال کا فضلہ کھلے آسمان تلے پڑا ہے‘ کیا یہ حالات ہمارے مریضوں کو مزید بیمار نہیں کریں گے؟‘‘
خیبر پختونخوا میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے 16سو ادارے قائم ہیں جن سے وابستہ 63,300اہلکارعوام کو خدمات فراہم کررہے ہیں۔ ہر ضلع میں صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے بنیادی مراکزِ صحت، سول ہسپتال، دیہی مراکزِ صحت، ڈسپنسریاں، تحصیل اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال قائم ہیں لیکن تسلی بخش خدمات فراہم نہیں کی جارہیں جس کے باعث لوگ ان ہسپتالوں کا رُخ کرنے سے کترانے لگے ہیں۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا کے صدر ڈاکٹر عالمگیر یوسف زئی نے خیبرپختونخوا کے ہسپتالوں کی حالتِ زار کا نقشہ کھینچتے ہوئے صوبہ میں امراضِ گردہ کے لیے قائم ہسپتال کی کہانی سنائی۔ ہسپتال کے او پی ڈی میں روزانہ چار سو سے زائد مریض اپنا طبی معائنہ کرواتے ہیں جب کہ ہسپتال میں صرف تین یونٹ ہیں اور ہر یونٹ میں صرف پانچ بیڈ ہیں۔ ڈاکٹر عالمگیر نے آگاہ کیا کہ 27برس قبل قائم ہونے والے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے بعد سے صوبہ میں کوئی اور ہسپتال قائم نہیں کیا گیا۔
خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرمان علی متفق نہیں تھے کہ حکومت موجودہ صورتِ حال سے غافل ہے یا اس حوالے سے کچھ نہیں کر رہی۔ انہوں نے کہا کہ ہر اصلاحاتی پیکیج کو قابلِ عمل بنانے کے لیے کچھ عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان علی کا مزید کہنا تھا:’’ تبدیلی کے عمل کو لاگو کرنا ممکن نہیں ہے‘ ہمیں مؤثر ترقی کے لیے اجتماعی طور پر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ان سے جب ہسپتال میں جابجا پھیلی گندگی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اتفاق نہیں کیا۔ ڈاکٹر فرمان علی نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال کا سیوریج سسٹم کام نہیں کررہا جس کے باعث آلودہ پانی کا جمع ہونا معمول بن چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے کوشش کر رہی ہے۔
خیبرپختونخوا میں برسرِاقتدار پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر صوبے کے شعبۂ صحت کو استوار کرنے کے لیے پرعزم ہے جس کے لیے صوبائی حکومت نے خیبرپختونخوا میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنز ریفارمز ایکٹ 2015ء پاس کیا ہے۔
مذکورہ ایکٹ کے تحت اصلاحاتی پرواگرام متعارف کروا کر سرکاری میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنز اور ان سے منسلک ٹیچنگ ہسپتالوں کو میڈیکل کی تعلیم اور مریضوں کی نگہداشت بہتر بنانے کے لیے خودمحتاری دی جاچکی ہے۔
ہسپتالوں کے انتظامی ڈھانچے کو تبدیل کیا جاچکا ہے۔ ہر میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ کا بورڈ آف ڈائریکٹرز تشکیل دیا گیا ہے تاکہ شعبۂ صحت کو بہتر بنایا جائے۔
شعبۂ صحت کی کارکردگی جانچنے اور خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے ایک خودمحتار مانیٹرنگ یونٹ قائم کیا گیا ہے۔ خودمحتار مانیٹرنگ یونٹ (آئی ایم یو) ایک سرکاری پروگرام ہے۔ یہ تین برس پر محیط ایک منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو ’’ خدمات تک رسائی، عملے کی دستیابی اور خدمات کے معیار میں بہتری‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے جسے ڈیش بورڈ سسٹم کے تحت منتظم کیا جائے گا جس میں صوبے کے کسی بھی علاقے کے اعداد و شمار اعلیٰ حکام کے سامنے ظاہر ہورہے ہوں گے۔
آئی ایم یو کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر اختر نے یہ کہتے ہوئے حکومت کا دفاع کیا کہ ان اصلاحات کا تعلق ٹیکنالوجی سے ہے اور لوگوں، ڈاکٹروں اور مانیٹرنگ سٹاف کو اس نئے سیٹ اپ سے متعارف ہونے کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا۔ وہ پُرامید ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات درست ہونا شروع ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر اختر کے مطابق رواں مالی سال کے دوران شعبۂ صحت کے لیے 35ارب روپے مختص کیے گئے ہیں لیکن ان کا یہ ماننا ہے کہ اگر حکومت بجٹ میں سالانہ بنیادوں پر 15فی صد اضافہ نہیں کرتی تو حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات دوررَس نہیں ہوں گے۔ وہ پراعتماد ہیں کہ موجودہ حکومت بڑھتی ہوئی طلب اور معیار کو برقرار رکھنے کے لیے شعبۂ صحت کے لیے مختص بجٹ میں اضافہ کرتی رہے گی۔
انسٹی ٹیوشنل میڈیکل کمیٹی خیبرپختونخوا کے رُکن اقبال خٹک نے کہا کہ ڈاکٹروں اور عملے کے ارکان کی ایک بڑی تعداد حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی اصلاحات اور تبدیلیوں کے بارے میں آگاہ نہیں ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ آگاہی نہ ہونے کے باعث شعبۂ صحت سے متعلقہ قوانین کے نفاذ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اقبال خٹک کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی جانب سے حکومت کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے لیے کی جانے والی ہڑتالوں کے باعث حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ انہوں نے نیو زلینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانونی طور پر ڈاکٹروں کے ہڑتال کرنے پر پابندی عاید ہے لیکن اس حوالے سے قانونی میکانزم نہ ہونے کے باعث ڈاکٹر وں کی جانب سے قانون کا احترام نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی اصلاحات ہنوز کاغذوں تک محدود ہیں۔ اقبال خٹک کا مزید کہنا تھا:’’ جب تک مریض صحت یاب ہونا شروع نہیں ہوتے ‘ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پی ٹی آئی کی حکومت صوبہ خیبرپختونخوا میں شعبۂ صحت کی اصلاح کے لیے جدید تکنیکوں کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔‘‘