بچوں کے ساتھ ریپ کے واقعات میں اضافہ ‘ والدین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی

0
4048

: Photo By News Lens Pakistan / AB Arisarعمر کوٹ ( اللہ بخش اریسار سے) 11برس کی اس بچی کے خاندان کے کرب کو الفاظ میں مناسب طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا جسے اس کے سکول کے ہیڈماسٹر نے ریپ کا نشانہ بنایا۔ اگر یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ کوئی بچے کے ساتھ اس طرح کا غیرانسانی فعل کرسکتا ہے تو یہ خیال بھی روح فرسا ہے کہ کوئی استاد ایسا کرے۔ متاثرہ بچی حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں کرسکتی لیکن اس نے جس اذیت اور تذلیل کا سامنا کیا ہے‘ اس کے لیے اس تلخ تجربے کو بھلانا ممکن نہیں ہوگا۔ اپنے بستر پر دراز یہ بچی (نیوز لینز پاکستان کی ادارتی پالیسی کے تحت اس بچی کا نام ظاہر نہیں کیا جارہا) سسکیاں لے رہی تھی اور درد کی شکایت کر رہی تھی۔ وہ خوف کے باعث والدین کے قریب جانے سے بھی گریزاں تھی۔ 
عمر کوٹ کے بھون شاہ پرائمری سکول کے ہیڈماسٹر مشتاق کنبھرنے 2مئی کو سکول میں وقفہ کے دوران اس بچی کو مبینہ طور پر اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ وہ اسے اس کمرے میں خون میں لت پت چھوڑ کر چلا گیا جہاں اس نے اس کے ساتھ ریپ کیا تھا۔
تین مئی کو متاثرہ بچی کے بھائی رسول بخش کی شکایت پرہیڈ ماسٹر کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی شق (i)376کے تحت غلام نبی شاہ پولیس سٹیشن میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔
مشتاق سکول میں بچیوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے باعث طالبات اور ان کے والدین میں بدنام ہے۔ متاثرہ بچی کی بہن فہمیدہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشتاق سکول میں وقفہ کے دوران کلاس روم کے پردے گرا دیتا تاکہ ’’کاپیوں کو چیک‘‘ کرسکے۔ سکول میں اسی طرح کے ایک وقفے کے دوران اس کی بہن مشتاق کی ہوس کا شکار ہوگئی۔ 
سکولوں یا اساتذہ کی عمومی کارکردگی کے خلاف درخواست جمع کروانے کا نظام نہ ہونے کے باعث والدین اور طالب علم یہ مسئلہ عوام کے روبرولانے میں ناکام رہے ہیں۔ باعثِ تشویش اَمر یہ ہے کہ مشتاق سکول میں زیرِتعلیم تمام 23طالبات کی تدریس کے فرائض تنہا ہی انجام دیتا تھا۔
متاثرہ بچی کے ہم جماعت جاوید کے مطابق مشتاق ایک ایسا شخص ہے جوسکول میں زیرِتعلیم بچوں کی اصلاح کے لیے ان کو سخت سزائیں دیتا اور اکثر و بیش تر جب بچوں سے سبق سنتا تو ان سے بغل گیر ہوجاتا اور طالبات کی جانب غیر اخلاقی حد تک پیش قدمی کرتا۔ جاوید نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دو برس قبل مینابھیل نامی ایک طالبہ نے مشتاق کے رویے کے باعث سکول چھوڑ دیا تھا۔ 
متاثرہ بچی کے والدین پُریقین نہیں ہیں کہ ان کی بچی کو کبھی انصاف مل پائے گا یا نہیں۔ قبل ازیں اس نوعیت کے تمام مقدمات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔ اس مقدمے کا نتیجہ بھی یہی ہوگا لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہیڈ ماسٹر اثر و رسوخ کا حامل ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقوعے کے باعث حکومت کی نااہلی بے نقاب ہوگی۔
والدین نے فی الوقت اپنی بچیوں کو سکول جانے سے روک دیا ہے۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ تین کمروں کا یہ سکول ، جس میں چھ مرد اساتذہ فرائض انجام دیتے ہیں، ان کی بچیوں کے لیے محفوظ مقام نہیں ہے۔
متاثرہ بچی کے والد منہال کنبھر اپنی بچی کو سکول بھیجنے پر شرمندہ ہیں۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کو سکول بھیجنے کے خلاف تھے لیکن ہیڈ ماسٹر کے اصرارپر تیار ہوگئے جس نے ان کی بیٹی کی زندگی تباہ کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے خاندان کے دیگر ارکان پر بھی زور دیا کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔ منہال کنبھر نے کہا:’’ میری خواہش تھی کہ میں اپنی بیٹی کو سکول نہ بھیجتا۔‘‘
علاقہ مکینوں نے زور دیا کہ حکومت کو لڑکیوں کے لیے ایک الگ سکول قائم کرنا چاہیے تاکہ اہلِ علاقہ کا لڑکیوں کی تعلیم پر اعتماد بحال ہوسکے۔
دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو کبھی ناگزیر تصور نہیں کیا گیا۔ اساتذہ جب بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں تو والدین کے لیے یہ مزید مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو سکول بھیجیں۔
عمر کوٹ کے پرائمری سکول میں زیرِ تعلیم بچیوں کا تناسب 44فی صد ہے‘ مڈل تک پہنچتے پہنچتے یہ 10فی صد جب کہ ہائی سکولوں میں مزید کم ہوکر صرف پانچ فی صد رہ جاتا ہے۔
یہ اس نوعیت کا کوئی اولین واقعہ نہیں ہے جب سندھ یا پاکستان میں کسی بچی کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ قبل ازیں دسمبر 2012ء میں ایک چھ برس کی بچی کو عمر کوٹ کے قصبے غلام نبی شاہ میں ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
2014ء میں مددگار نیشنل ہسپتال نے پاکستان میں بچوں پر ہونے والے تشدد کے گزشتہ تین برس کے اعداد و شمار جاری کیے جن کے مطابق جنوری 2010ء سے دسمبر 2013ء تک 4,572بچیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2014ء کے دوران 139بچیوں کے ساتھ گینگ ریپ جب کہ 290کے ساتھ ریپ کیا گیا۔
تاہم بہت سے وقوعے رپورٹ نہیں ہوئے اور بیش تر اوقات متاثرہ فریق پر ہی اس جرم کا الزام عاید کر دیا گیا۔ پاکستانی ثقافت میں بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے پر بات نہیں کی جاتی۔ ریپ کا شکار ہونے والے بچوں کے والدین پولیس میں مقدمہ درج کروانے سے گریزاں رہتے ہیں کیوں کہ وہ خوف زدہ ہوتے ہیں کہ اس سے ان کے خاندان کی بدنامی ہوسکتی ہے۔
غیر سرکاری تنظیم ساحل کی ششماہی رپورٹ 2014کے مطابق جنوری سے جون 2014ء تک پاکستان بھر میں بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے 1786واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ 2013ء میں اس عرصہ کے دوران ایسے واقعات کی تعداد 1204تھی۔ 2014ء میں رپورٹ ہونے والے 1786 واقعات میں سے 1172(66فی صد) بچیوں کے ساتھ پیش آئے۔ 34فی صد متاثرین کی عمر چھ سے 15برس کے درمیان تھی۔ تقریباً 12سو واقعات دیہی جب کہ 586شہری علاقوں میں وقوع پذیر ہوئے۔
مشتاق کنبھر ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لڑکی نے یہ کہانی خود سے گھڑی ہے۔ملزم کے ساتھی اساتذہ سے جب مختلف غیر سرکاری تنظیموں نے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ مشتاق ایسی کوئی حرکت نہیں کرسکتا۔ انسانی حقوق کے کارکن عبدالحلیم کہتے ہیں کہ پاکستان میں انکار کرنے کی یہ روایت، جسے سیاسی طور پر درستی کے احساس سے تقویت ملتی ہے، عام ہے۔
عمر کوٹ پولیس کے سربراہ عبدالقیوم پتافی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ تفتیشی ٹیم تشکیل دے چکے ہیں۔ ٹیم کے سربراہ ڈی ایس پی غلام سرور بابر نے ملزم کے سپرم اور متاثرہ بچی کے جسم سے ملنے والے شواہد کو جانچ کے لیے کراچی کی لیبارٹری میں بھیج دیا ہے۔ عبدالقیوم پتافی نے کہا کہ رپورٹ کے موصول ہونے کے بعد اس و قوعہ کی تفصیل کے ساتھ تفتیش کی جائے گی۔
پاکستان میں بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات میں ملزموں کو سزائیں ملنے کی شرح چار فی صد سے زیادہ نہیں ہے۔
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر لاکیش کمار کھتری کہتے ہیں کہ یہ وقت ہی بتائے گا کہ یہ مقدمہ حل ہوپائے گا یا نہیں تاہم اب لڑکی کی زندگی پہلے جیسی نہیں رہے گی۔علاوہ ازیں ریپ کے متاثرین کو عمومی طور پر پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کے عارضے کا شکار دیکھا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ ڈراؤنے خوابوں، جرم کی یادداشتوں کے باعث پیدا ہونے والی تصوراتی اذیت اور متاثرہ فریق کے اعتماد میں آنے والی کمی کے امکان کو نظراندازنہیں کیا جاسکتا۔حال ہی میں ہونے والی تحقیق سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ پی ٹی ایس ڈی کی شدت میں اس وقت مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب کوئی بچپن میں ریپ کا شکار ہوا ہو۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here