پشاور (اظہار اللہ سے) کامیاب سیاست دانوں اور ان کے ٹیکنالوجی پر جادو دکھانے والے پبلک ریلیشن منیجرز تو ایک طرف خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے متوسط و نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے امیدوار بھی سماجی میڈیا کا بھرپور انداز سے استعمال کر رہے ہیں جس کے باعث یہ ’’گراس روٹ‘‘ تک پہنچ چکا ہے جس کی اسے شدت سے ضرورت تھی۔
صوبہ خیبرپختونخوا میں 30مئی کوہونے والے بلدیاتی انتخابات سے قبل دیہاتوں اور قصبوں میں امیدواروں کا سماجی میڈیاپر انحصار اس حد تک بڑھ گیا ہے جیسا کہ مچھلی کے لیے پانی ناگزیر ہوتاہے۔
پاکستان ایڈورٹائزرز سوسائٹی کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعدادتقریباً 13ملین ہے جن میں سے 72فی صد مرد ہیں اور اکثریت کی عمر 18سے 34برس کے درمیان ہے۔ ان 13ملین فیس بک استعمال کرنے والوں میں سے 30لاکھ کراچی سے تعلق رکھتے ہیں‘ لاہور دوسرے نمبر پر ہے جس کے 26لاکھ شہر ی فیس بک استعمال کرتے ہیں‘ اسلام آباد 19لاکھ فیس بک استعمال کنندگان کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ پشاور کے پانچ لاکھ اور کوئٹہ کے دو لاکھ شہری فیس بک پر فعال ہیں۔
پاکستان میں2013ء کے عام انتخابات میں سماجی میڈیا سیاسی اور انتخابی مہم چلانے کے لیے ایک مؤثر ترین پلیٹ فارم کے طور پر نمایاں ہوا ‘ جب امیدواروں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر اپنے انتخابی منشور شیئر کیے جس کے باعث وہ نہ صرف اپنے حلقۂ انتخاب میں فعال ہوئے بلکہ حامیوں تک رسائی حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات 2015ء ہونے جارہے ہیں جس میں شہروں کی طرح قصبوں اور دیہاتوں میں بھی انتخابی مہم پرجوش انداز سے چلائی جارہی ہے ‘ مختلف امیدواروں کے عزیز و اقارب و دیہاتی فیس بک پر مقامی زبانوں میں سیاسی بینرز، تصاویر اور وعدے شیئر کررہے ہیں تاکہ وہ دیہاتوں، تحصیلوں ، قصبوں اور ضلعی کونسلوں کی سطح پر اپنے امیدواروں کے لیے بھرپور حمایت حاصل کرسکیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق صوبہ بھر میں 93,231امیدوارمقامی حکومت کی43,954 نشستوں پرمدِمقابل ہوں گے جن میں دیہی کونسلرز، تحصیل و ٹاؤن کونسلرز اور ضلعی کونسلرز شامل ہیں۔
فیس بک چوں کہ بلامعاوضہ ہے اور استعمال کنندگان اس پر اپنی مرضی کا مواد شیئر کرسکتے ہیں جس کے باعث امیدوار اپنے ان حامیوں سے، جو فیس بک استعمال کرتے ہیں، یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہزاروں استعمال کنندگان تک پہنچنے کے لیے اپنی ٹائم لائن پران کے سیاسی بینر شیئر کریں۔
پشاور کی ایک نجی یونیورسٹی میں زیرِتعلیم عبدالکریم فیس بک پر ایک صفحے کے منتظم ہیں جس کے 10ہزار سے زائد فالوورز ہیں‘ انہیں امیدواروں کی جانب سے یہ ’’درخواستیں‘‘ موصول ہوئی ہیں کہ وہ اپنی ٹائم لائن پر ان کے پوسٹر شیئر کریں تاکہ وہ اپنے ووٹرز تک رسائی حاصل کرسکیں۔
عبدالکریم نے مسکراتے ہوئے نیوز لینز سے کہا:’’ جب امیدوارسیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے درخواست کرتے ہیں تو میَں خود کو ایک معروف شخصیت تصور کرتا ہوں۔‘‘
تاہم فیس بک پر بلامعاوضہ انتخابی مہم چلائے جانے کی وجہ سے امیدواروں اور ان کے حامیوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں ‘ وہ اب اپنے ووٹرز تک بلامعاوضہ اور روایتی میڈیا و انتخابی مہم کی بندشوں سے آزاد ہوکر رسائی حاصل کرسکتے ہیں جس کے باعث اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔دوسری جانب اخبارات کی تقسیم، اشتہارات اور فروخت کے شعبہ سے منسلک لوگ سماجی میڈیا پر انتخابی مہم چلائے جانے کے اس رجحان کو اخبارات کی سرکولیشن اور کاروباری مفادات کے لیے ایک سنجیدہ نوعیت کاخطرہ تصور کرتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ خیبرپختونخوا کے سیلز و ڈسٹری بیوشن منیجر عبدالرؤف یوسف زئی نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امیدواروں کی ایک بڑی تعداد روایتی میڈیا پر انتخابی مہم چلانے کی بجائے سماجی میڈیا کی جانب متوجہ ہوئی ہے جس کے باعث ماضی کی نسبت اس بار اخبارات کا منافع کم ہوا ہے۔
اخبارات کے کاروبار کے لیے ایک اور تشویش ناک پہلو ان کی سرکولیشن میں آنے والی کمی بھی ہے۔ عبدالرؤف یوسف زئی نے کہا کہ سماجی میڈیا کے آنے سے قبل اخبارات کی سرکولیشن میں اضافہ ہوتا رہاہے جس میں گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران کمی آئی ہے۔
انہوں نے کہا:’’ وہ امیدوار جو سماجی میڈیا کے توسط سے اپنے حامیوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطہ کررہے ہیں‘ ان کے صفحات پر لاکھوں فالوورز ہیں۔ وہ اس کے لیے کوئی معاوضہ ادا نہیں کرتے چناں چہ اب وہ اخبارات میں تشہیر کے لیے لاکھوں روپے کیوں کر خرچ کریں گے؟‘‘
40برس کے رحیم اللہ خان پشاور سے جنرل کونسلر کی نشست پر امیدوار ہیں‘ وہ صوبہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کی مہم شروع ہونے سے بہت عرصہ پہلے سے فیس بک کا صفحہ استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے انٹرنیٹ کنکشن کے ساتھ ایک سمارٹ فون بھی خریدا تھا جو وہ کئی کئی گھنٹوں تک فیس بک پر اپنے حامیوں کے ساتھ رابطے کے لیے استعمال کرتے ہیں‘ وہ ان کے سوالوں اور تبصروں کے جواب دیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سماجی میڈیا پر چلائی جانے والی مہم لاکھوں روپے کے اشتہارات شایع کروانے سے کئی گنا بہتر ہے۔
رحیم اللہ خان نے کہا:’’ میں اس وقت اطمینان محسوس کرتا ہوں جب کوئی استعمال کنندہ میرے پوسٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:’میرا ووٹ آپ کے لیے ہے۔‘ اس نوعیت کا رابطہ روایتی میڈیا پر ممکن نہیں ہوسکتا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے فیس بک چیٹنگ کے ذریعے براہِ راست اپنے دوستوں سے رابطہ کیا جس سے نہ صرف ان کی بلکہ ان کے حامیوں کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی ‘ یوں ان کو اپنے سیاسی حریفوں پر ایک طرح کی برتری حاصل ہوگئی ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی جاوید عزیز خان ، جو سماجی میڈیا پر بلدیاتی انتخابات کے لیے چلائی جانے والی مہم کا قریب سے مشاہدہ کر رہے ہیں‘ کہتے ہیں کہ سماجی میڈیا کو انتخابی مہم کے لیے استعمال کرنے کا رجحان بڑی حد تک شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ امیدواروں اور ان کے حامیوں تک محدود ہے۔
انہوں نے کہا:’’ دیہاتی علاقوں میں اس کا استعمال اس قدر عام نہیں ہواکیوں کہ دیہی علاقوں کی آبادی کی اکثریت کی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔‘‘
جاوید عزیز خان فیس بک اور ٹوئٹر پر فعال ہیں‘ان کا یہ ماننا ہے کہ سماجی میڈیاکا استعمال مؤثر ہے‘ خاص طور پر جب بلدیاتی انتخابات میں کچھ امیدواروں کی تشہیر مقصود ہولیکن حامیوں تک رسائی حاصل کرنے کے روایتی طریقے تاحال زیادہ مفید ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ سماجی میڈیا کسی بھی امیدوار کی انتخابی مہم پر بڑے پیمانے پرمثبت اثرات مرتب کرسکتا ہے لیکن انتخابی مہم کے روایتی طریقوں جیسا کہ پوسٹرز اور ریلیوں وغیرہ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
جاوید عزیز خان سماجی میڈیا کو بلدیاتی انتخابات میں انتخابی مہم چلانے کے لیے ایک ترجیحی پلیٹ فارم خیال کرتے ہیں کیوں کہ امیدواروں کی اکثریت کے پاس اس قدر وسائل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سماجی میڈیا کے بلامعاوضہ ہونے کے باعث انتخابی مہم کے اخراجات کم ہوچکے ہیں جیسا کہ اب پوسٹرزاور بینرز وغیرہ بنوانے پر کوئی اخراجات نہیں ہوتے۔
Home Other Languages Urdu Stories خیبرپختونخوامیں بلدیاتی انتخابات‘ امیدواروں کا سماجی میڈیا پر انحصار بڑھ گیا