خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات لیکن نوجوان قیادت کہیں پر نظر نہیں آرہی

0
3888

Photo By Matiullah Achakzai

پشاور (اظہار اللہ سے)تجزیہ کاروں کا خیبر پختونخوا میں 30مئی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے متعلق کہنا ہے کہ اگرچہ بلدیاتی حکومت میں نوجوانوں کے لیے نشستیں مخصوص کی گئی ہیں لیکن طلباء سیاست پر طویل عرصہ سے عاید پابندی کے باعث نوجوان قیادت نہیں ابھر سکی۔
پاکستان کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے جو تقریباً 60فی صد ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلبا یونینوں پر پابندی کی حکومتی پالیسی کے ناقدین کہتے ہیں کہ مذکورہ پالیسی کے باعث نوجوان پاکستان کے سیاسی نظام ، اس کی حرکیات اور پیچیدگیوں کے بارے میں آگاہ نہیں ہوسکے۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت میں لیکچرار ڈاکٹر فیض اللہ جان نے کہا:’’ طبا یونینوں پرگزشتہ 35برس سے عاید پابندیوں کے باعث ہم نے اس پلیٹ فارم کو غیر مؤثر کر دیا ہے جو طالب علموں کے لیے سیاست میں قدم رکھنے کے لیے ایک نرسری اور تربیتی مقام تھا۔ پاکستان میں طلبا یونینوں پر عاید طویل پابندی کے باعث پاکستان کے قومی منظرنامے میں سیاسی طور پر بالغ نوجوان اور اعلیٰ پایے کی قیادت منظرِعام پر نہیں آسکی۔‘‘
پاکستان میں طلبا یونینوں پرفروری 1984ء میں مارشل لاکے ایک حکم نامے کے ذریعے پابندی عاید کی گئی جو فوجی آمرصدر جنرل ضیاء الحق نے جاری کیا تھا۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیشن اینڈ ڈویلپمنٹ (پلڈاٹ) کی ایک تحقیق کے مطابق طلباء یونینوں پر پابندی کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں کے باعث تشدد بڑھ رہا تھا۔
رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بڑے پیمانے پر یہ ماناجاتا ہے کہ یہ پابندی اس لیے عاید کی گئی کیوں کہ جنرل ضیاء الحق طلبا یونینوں کو اپنی فوجی حکومت کے لیے خطرہ تصور کرتے تھے:’’ یہ بھی یقین پایا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ ان رپورٹوں کی بنیاد پر کیا گیا تھا کہ حکومت مخالف طلبا اتحاد قابلِ ذکر اثرورسوخ اور طاقت حاصل کرچکے ہیں اور یہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔۔۔ یہ اسی نوعیت کا خطرہ تھا جس کے باعث 1969ء میں صدر ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹ گیا تھا اور انہوں( ضیاء) نے طلبا یونینوں اور دیگر طلبا تنظیموں پر پابندی عاید کرکے اس نوعیت کے کسی بھی امکان پر پیشگی قابو پالیا۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی شہید سربراہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بالترتیب 1988ء اور 2008ء میں پارلیمنٹ کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں طلبا یونینوں پر عاید پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم سیاسی قیادت کی جانب سے وعدوں کے باوجود طلباء یونینوں کی بحالی کے لیے سیاسی محاذ پر بہت کم سرگرمی دیکھنے میں آئی۔
خیبرپختونخوا میں طویل وقفے کے بعد رواں ماہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں صوبے کے ہر ضلع کی دیہی کونسل میں ایک نشست نوجوانوں کے لیے مخصوص کی گئی ہے۔
25برس کے مشتاق احمد نے کہا:’’ میَں بلدیاتی انتخابات کے طریقۂ کار سے آگاہ نہیں ہوں۔‘‘ انہوں نے خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر سے نوجوانوں کی نشست کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ کبھی کسی طلبا فیڈریشن کی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہوئے کیوں کہ ’’ یہ تعلیمی اداروں میں تشدد کو ہوا دینے کے علاوہ کچھ نہیں کرتیں۔‘‘
29برس کے ایک اور امیدوار محمد طیب خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ سے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں‘ انہوں نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سٹوڈنٹ یونینز‘ اور ’سٹوڈنٹ فیڈریشنز‘ میں یہ فرق ہے کہ اولذکر کا صرف ایک ویژن ہوتا ہے جب کہ موخرالذکرتعلیمی اداروں میں ریلیاں منعقدکرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی سرگرمیوں کو منفی طور پر متاثر بھی کرتی ہیں۔ 
ماضی میں طلبا یونینز تعلیمی اداروں میں مختلف طرح کی تربیتی نشستوں کا اہتمام کرتی رہی ہیں جن میں قیادت کی تربیت، آگاہی مہم اور حقوق و سیاسی شعور کی بیداری کے لیے مختلف پروگراموں کا انعقاد شامل ہے۔ طلبا یونینز سرکاری تعلیمی اداروں کے انتظامی ڈھانچے کا ایک اہم جزو ہوا کرتی تھیں جہاں یہ طلبا کے حقوق کے تحفظ کے لیے تجاویز دیا کرتیں۔
سیاسی تجزیہ کار طلبا یونینوں پر پابندی کو پاکستان میں جمہوریت کی بقاء کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہیں۔ پالیسی سازی کے امور کے ماہر اور تجزیہ کار رضا رومی نے کہا کہ طلبا سیاست پر پابندی کے جمہوریت کی بقاء پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کے باعث نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جمہوری اور انتخابی امور کے بارے میں آگاہ نہیں ہوسکی۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ خیبرپختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے نوجوان کیوں کر سیاسی آگاہی نہیں رکھتے ؟ رضا رومی نے کہا کہ بلدیاتی حکومتوں کے نظام میں بے قاعدگی آگئی تھی جس کے باعث سیاسی شراکت کا عمل متاثر ہوا۔
انہوں نے مزید کہا:’’ پاکستان کو طلبا یونینوں پر عایدپابندی ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کو مرکزی دھارے کی سیاست کی جانب متوجہ کیا جاسکے۔ اس کے لیے ریاست کو لازمی طور پر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ جمہوری راستہ ایک متنوع معاشرے اور ریاست کو جواب دہ بنانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ غیر منتخب ’’ ہیئتِ مقتدرہ‘‘ اس حق میں نہیں کہ تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں اور سیاسی جماعتیں بھی خوف زدہ ہیں کہ اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کے حریف سیاسی برتری حاصل کرسکتے ہیں۔
رضا رومی نے استفسار کیا:’’ بنگلہ دیش، انڈیا اور دیگر ممالک میں طلبا یونینزفعال ہیں تو پاکستان میں کیوں کر ان پر پابندی عاید ہے؟ اس پابندی سے جمہوری شراکت کے عمل کو کمزور کرنے کے علاوہ اور کیا مقصد حاصل کیا جارہا ہے۔‘‘
پشاور یونیورسٹی میں کام کرنے والی مختلف طلبا فیڈریشنز کے رہنماؤں نے بھی طلبا یونینوں کے کردار سے متعلق اسی نوعیت کی آراء کا اظہار کیاکہ یہ نئی قیادت کے لیے تربیت گاہ کا کردار ادا کرتی ہیں۔
مذہبی سیاسی پارٹی جماعتِ اسلامی سے منسلک اسلامی جمعیت طلبا کے جنرل سیکرٹری میاں صہیب الدین کاکاخیل نے طلبایونینوں پر پابندی کی سخت الفاظ میں مخالفت کی اور کہا کہ یہ اقدام آئینِ پاکستان کے خلاف ہے‘یہ واضح رہے کہ اسلامی جمعیت طلباملک بھر کے تعلیمی اداروں میں فعال ہے۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے نوجوان سیاسی نظام کے بارے میں آگاہ ہیں اور نہ ہی اس قدر شعور رکھتے ہیں کہ اپنے حلقوں میں نوجوانوں کے مسائل حل کرسکیں۔
میاں صہیب الدین کاکاخیل نے حکومت پر تعلیمی اداروں میں طلبا سیاست کی بحالی کے لیے اقدامات نہ کرنے پر تنقید کی ‘ انہوں نے کہا:’’ یونیورسٹیوں نے طلبا یونینوں کے متبادل طالب علم سوسائٹیاں بنائی ہیں لیکن یہ ایک بچگانہ سوچ ہے کیوں کہ طلبا کی یہ سوسائٹیاں سیاست میں حصہ نہیں لیتی ہیں۔ یہ صرف سیمیناروں کے انعقاد یا سمپوزیمز تک محدود رہتی ہیں اور اس سے زیادہ ان کا کوئی کردار نہیں۔‘‘
انہوں نے تعلیمی اداروں میں ’’طلبا یونینوں‘‘ اور ’’طلبافیڈریشنز‘‘ کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے اولذکر کو زیادہ مفید قرار دیا کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ طلبا فیڈریشنز میں صرف چند طالب علم ہی فعال ہوتے ہیں جس کی وجہ ان سے جڑے اس تاثر کا فروغ ہے کہ یہ تشدد کو ہوادیتی ہیں۔
میاں صہیب الدین کاکاخیل نے کہا:’’ طلبا یونینوں کا ایک انتخابی ڈھانچہ ہوتا ہے جو طالب علم رہنماؤں کی تربیت اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے ایک نرسری کا کردار ادا کرتا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here