کراچی (امر گرڑوسے) صوبائی محکمۂ تعلیم سندھ کی جانب سے 2014ء میں بھرتی کیے گئے 19ہزار پرائمری، سیکنڈری اور ہائی سکول اساتذہ کو گزشتہ ایک برس سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی۔
ان اساتذہ کو صوبائی محکمۂ تعلیم نے عالمی امدادی اداروں جیسا کہ عالمی بنک اور یورپی یونین کے تعاون سے شروع کیے گئے خصوصی پروگرام کے تحت بھرتی کیا تھا۔ اس تعاون کا مقصد صوبے میں تعلیم کی فراہمی کے عمل کو مؤثر بنانا تھا۔
پرائمری سکول ٹیچرز ایسوسی ایشن سندھ(جی ایس ٹی اے) کے صدر اشرف خاصخیلی کہتے ہیں:’’ ایک شخص ان حالات میں کس طرح پیشہ ورانہ خدمات انجام دے سکتا ہے جب اس کو اس کے کام کا معاوضہ نہ مل رہا ہو؟‘‘ اشرف خاصخیلی نے نیوز لینز پاکستان سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے 19ہزار سے زائد اساتذہ کو سرکاری قواعد کے مطابق بھرتی کیا لیکن ان کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی۔
ان اساتذہ کی اکثریت ریفارم سپورٹ یونٹ (آر ایس یو) سے تعلق رکھتی ہے‘ حکومتِ سندھ کی جانب سے یہ خصوصی منصوبہ 2006ء میں تعلیمی شعبہ میں اصلاحات کو منظم کرنے اوربہتر بنانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔
2014ء میں عالمی بنک نے سندھ ایجوکیشن سیکٹر ریفارم پروگرام کے دوسرے مرحلے کے لیے چار سو ملین امریکی ڈالرز کے فنڈز جاری کیے۔اس منصوبہ کے تحت صوبائی حکومت نے ان اساتذہ کو ایک پیچیدہ طریقۂ کار کے تحت سندھ کے پرائمری، سیکنڈری اور ہائی سکولوں کے لیے بھرتی کیا۔
سندھ میں شعبۂ تعلیم زبوں حالی کا شکار ہورہا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران صوبہ میں بہت سے گھوسٹ سکولوں اور گھوسٹ اساتذہ کے بارے میں انکشاف ہوا‘ چناں چہ عالمی امدادی ادارے شعبۂ تعلیم کی بحالی کے لیے سندھ حکومت کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔
تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے باعث اساتذہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ضلع بدین سے تعلق رکھنے والی شبانہ چانڈیو نے نیوز لینز پاکستان سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا:’’ میَں نجی شعبہ میں ایک اچھے عہدے پرمعقول تنخواہ پر کام کر رہی تھی لیکن جب میری سرکاری شعبہ میں بطور استانی تعیناتی عمل میں آئی تو میں نے یہ ایک محفوظ ملازمت خیال کرتے ہوئے قبول کرلی۔ لیکن اب کوئی تنخواہ نہیں مل رہی جس کے باعث مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے۔‘‘
محکمۂ تعلیم سندھ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2013ء میںآرایس یو کو عالمی بنک کی جانب سے 23ارب روپے کے فنڈز جاری کیے گئے جب کہ 2014ء میں مزید 16ارب روپے دیے گئے تاکہ یونٹ بہتر طور پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکے۔ 2010ء میں یورپی یونین نے بھی 39ملین یورو ادا کیے تھے۔ اس قدر خطیر فنڈز حاصل کرنے کے باوجود آر ایس یو مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
یونیسکو کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطاق پاکستان میں سکول جانے کی عمر کے 55لاکھ بچے سکول نہیں جاتے جن میں سے 61فی صد یا 33.5ملین بچوں کا تعلق سندھ سے ہے۔
وزیرتعلیم سندھ نثار احمد کھوڑو نے تصدیق کی کہ ان کے محکمہ کی جانب سے بھرتی کیے گئے ان اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی ہے۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر عمداً نہیں ہوئی بلکہ طویل سرکاری طریقۂ کار کی وجہ سے ایسا ہوا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے محکمے نے قلیل مدت میں ایک بڑی تعداد میں اساتذہ کو بھرتی کیا جس کے بعد محکمہ نے ان کی تعلیمی دستاویزات متعلقہ یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کو تصدیق کے لیے ارسال کردیں جن کی جانب سے تاخیر ہوئی جس کے باعث محکمہ کے لیے تنخواہوں کی بروقت ادائیگی ممکن نہیں ہوسکتی تھی۔
انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ان اساتذہ کی ایک بڑی تعداد بوگس طریقۂ کار کے ذریعے بھرتی کی گئی جس کے باعث محکمہ ان کو قبول کرنے پر تیا رنہیں ہے اور یہ تنخواہوں میں تاخیر کی ایک بنیادی وجہ بھی ہے۔ نثار احمد کھوڑو نے کہا:’’ ہم اس حوالے سے کام کر رہے ہیں اور جلد ہی یہ مسئلہ حل ہوجائے گاجب کہ ہم نے کچھ اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی کا سلسلہ شروع کربھی دیا ہے۔‘‘
پرائمری سکول ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر اشرف خاصخیلی نے اپنا ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا:’’ ان اساتذہ کو حکومت کی جانب سے بھرتی کیا گیا‘ ان کی تعیناتی کس طرح بوگس ہوسکتی ہے؟ یہ ناقابلِ فہم رویہ ہے‘ ان تمام اساتذہ نے نیشنل ٹیسٹنگ سروس کی جانب سے اس ملازمت کے لیے لیا جانے والا مقابلے کا امتحان پاس کیا۔‘‘
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر سندھ حکومت اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کرتی تو ان کی تنظیم جی ایس ٹی اے ( یہ اساتذہ کی یونین ہے جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے سندھ بھر میں 62ہزارارکان ہیں) جلد ہی محکمۂ تعلیم سندھ کے خلاف سندھ بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دے گی۔