کراچی: حکومتی عدم توجہی کے باعث معذور افراد کی مشکلات میں اضافہ

0
4375

کراچی (تہمینہ قریشی سے) سندھ میں سرکاری اداروں میں معذور افراد کی بھرتی کے لیے 42ہزار ملازمتیں پیدا کی گئی ہیں لیکن بیش تر محکموں میں مختلف وجوہات کے باعث اس پربڑی حد تک عملدرآمد نہیں ہوپارہا۔ محکمۂ سماجی بہبود کی ڈپٹی ڈائریکٹر ریاض فاطمہ کے مطابق ان اداروں نے نہ ہی معذور افراد کو بھرتی کیا ہے اور نہ ہی ان کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے عمارتوں کے تعمیراتی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی کی گئی ہے۔
سرکاری قواعد و ضوابط کے تحت ہر کاروباری ادارے و دفاتر کے لیے استعمال کی جانے والی عمارتوں میں معذور افراد کی رسائی آسان بنانے کے لیے سرٹفیکیٹ حاصل کرنے کی شرط عاید کی گئی ہے لیکن بہت سی عمارتوں کی تعمیرمیں ان قواعد و ضوابط کو پیشِ نظر نہیں رکھا گیا۔ 
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ڈپٹی ڈائریکٹر ندیم خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایس بی سی اے اور 2002ء کے کراچی بلڈنگ و ٹاؤن پلاننگ کے قواعد و ضوابط کے مطابق ایک عمارت میں معذور افراد کی آسانی کے لیے کم از کم پارکنگ لاٹ کا دو فی صد حصہ مخصوص ہو ‘ معذور افراد کے لیے ایک الگ بیت الخلا اور گراؤنڈ فلور پر وہیل چیئر کے لیے ڈھلوانی راستہ قائم ہو۔ 
انہوں نے کہا:’’ ڈھلوانی راستے کی ’’ بلندی سے لمبائی تک شرح 1:12فی صد ہو‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر زمین سے گراؤنڈ فلور ایک فٹ بلند ہے توڈھلوانی راستے کو 12فٹ طویل ہونا چاہیے اور کم از کم یہ چار فٹ چوڑا ہو۔ 
ان قواعد و ضوابط کے تحت وہیل چیئر استعمال کرنے والے معذور افراد کے لیے خاص طور پر بیت الخلا بھی تعمیر کیے جانے چاہئیں۔
معذور افراد کی نمائندہ تنظیم کے جنرل سیکرٹری نشاط احمد نے کہا کہ نیشنل ڈیٹابیس اینڈرجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور سول ایوی ایشن اتھارٹی میں معذور افراد کی بھرتیوں کے لیے دو فی صد کوٹہ مخصوص کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بقیہ تمام محکموں میں امیدواروں کی بھرتی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے جو معذوری کے جعلی سرٹفیکیٹ جمع کروا کر ان عہدوں کو حاصل کرلیتے ہیں۔
کراچی کی کسی ایک یونیورسٹی میں بھی معذور طالب علموں کوبنیادی نوعیت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جب کہ یونیورسٹی میں داخلوں کے لیے ان کے لیے دو فی صد کوٹہ مخصوص کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی آف کراچی میں زیرِتعلیم 50ہزار طالب علموں میں سے علی حسن واحد معذور طالب علم ہیں‘ ان کے لیے یہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے کہ وہ کلاسوں میں شرکت کے لیے سیڑھیاں چڑھنے کے لیے دوسروں کی مدد حاصل کریں۔ جب وہ کیمپس میں ہوتے ہیں تو ان کے لیے بیت الخلا کا استعمال بھی مشکل ہوجاتا ہے۔
فیڈرل اُردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنسزو ٹیکنالوجی کی ڈین آف ایجوکیشن اوریونیورسٹی آف کراچی میں شعبۂ سپیشل ایجوکیشن کی سربراہ شاہدہ سجاد کہتی ہیں:’’ یونیورسٹی آف کراچی اور فیڈرل اُردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنسز و ٹیکنالوجی میں اگرچہ خصوصی تعلیم کے شعبہ جات قائم ہیں لیکن باعثِ تشویش اَمر یہ ہے کہ ان شعبوں میں زیرِتعلیم کوئی ایک بھی طالب علم معذور نہیں ہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا:’’ خصوصی تعلیم کے شعبوں کے علاوہ دونوں یونیورسٹیوں کے کسی اور ڈیپارٹمنٹ میں بھی وہیل چیئر استعمال کرنے والے معذور افراد کے لیے ڈھلوانی راستہ تعمیر نہیں کیا گیا۔‘‘
اگرچہ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کی عمارتوں میں معذور افراد کے لیے الگ راستے تعمیر کیے گئے ہیں لیکن سٹی کورٹ میں ایسا کوئی راستہ نہیں جہاں مقدمات کی پیروی کے لیے روزانہ سینکڑوں افراد کا آنا ہوتا ہے جنہیں اس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب طویل سیڑھیاں چڑھ کر کمرۂ عدالت کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ 
کراچی بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری خالد ممتاز کہتے ہیں کہ کورٹ کی انتظامیہ نے اس مسئلے کا حل تلاش کر لیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی:’’ مقدمات کی پیروی کے لیے کمرۂ عدالت تک آنے میں مشکلات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے ایک کمشنر تعینات کیا گیا ہے جو ان کے بیانات ریکارڈ کرتا ہے اور بعدازاں مزید سماعت کے لیے متعلقہ عدالت کو ارسال کردیتا ہے۔‘‘سٹی کورٹ کی عمارت کو ورثہ قرار دیا گیا ہے جس کے باعث اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔
فراموش کردہ اقدامات
شاہدہ سجاد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2012ء میں سندھ حکومت نے یونیورسٹی آف کراچی کے شعبۂ خصوصی تعلیم اور دیگر خودمختار اداروں کے ساتھ مل کر ایک پالیسی تشکیل دی تھی جس کے تحت معذور افرادکو سہولیات فراہم کیا جانا مقصود تھا۔
اس منصوبہ کی تفصیل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے کراچی، لاڑکانہ، حیدرآباد، سکھر، شکارپور اور شہید بے نظیر آباد کے اضلاع میں 13سو معذور افراد کو مخصوص کارڈز جاری کیے تھے۔ 
شاہدہ سجاد نے مزید کہا کہ اسی منصوبے کے تحت انسٹی ٹیوٹ آف آرکیٹیکٹ پاکستان کی ایک ٹیم نے عمارتوں اور عوامی مقامات پرکچھ مخصوص تبدیلیاں کرنے کے حوالے سے نشاندہی کی تھی تاکہ معذور افراد کے لیے آسانی پیدا کی جاسکے۔ ان عوامی مقامات میں کراچی کینٹ سٹیشن بھی شامل تھا جس کے ڈھلوانی راستوں کو کارگو اتارنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا:’’ تاہم حکام نے جلد ہی اس پالیسی پر نظرثانی کی جو اب فائلوں کے ڈھیر کا حصہ بن چکی ہے۔‘‘
محکمۂ سماجی بہبود کی ڈپٹی ڈائریکٹر ریاض فاطمہ نے کہا کہ رواں برس سندھ حکومت نے ایک بار پھر صوبائی کونسل برائے بحالئ معذوراں تشکیل دی ہے جس کے 18اراکین ہیں جن میں محکمۂ سماجی بہبود کے سیکرٹری، سرکاری افسر اور خود مختار اداروں کے نمائندے شامل ہیں۔
معذوروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں
دوسری جانب کراچی یونیورسٹی کے ایڈمیشن ڈائریکٹر خالد عراقی نے یہ استدلال پیش کیا کہ شاذو نادر ہی کوئی معذور طالب علم یونیورسٹی میں اپنی معذوری کی بنا پر داخلے کے لیے درخواست جمع کرواتا ہے۔ انہوں نے کہا:’’ چند برس قبل تک یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والی بینائی سے محروم دو لڑکیاں زیرِتعلیم تھیں لیکن ان کا داخلہ اوپن میرٹ پر کیا گیا تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا:’’ مذکورہ بالا وجوہات کے باعث معذور افراد کے لیے مخصوص سیٹوں پر ریگولر طالب علموں کو داخلہ دے دیا جاتا ہے۔‘‘
داؤد کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈین راشد بیگ‘ خالد عراقی کے مذکورہ بالا استدلال سے متفق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کو یہ تک یاد نہیں ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران کسی معذور طالب علم نے یونیورسٹی میں داخلے کے لیے درخواست جمع کروائی بھی تھی یا نہیں۔
تاہم انجینئررولینڈ ڈی سوزا ، وہ ماحولیات کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’’شہری‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں جو شہر میں عمارتی قوانین کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھتی ہے، نے وضاحت کی:’’ ہم عوامی مقامات پر وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کو نہیں دیکھتے کیوں کہ ان میں سے بیش تر اپنی ذاتی ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے جب کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال نہیں کرسکتے۔‘‘
رولینڈ ڈی سوزا نے کہا کہ کراچی کی گلیوں میں چہل قدمی کرنے والوں کے لیے یہ شہر شاید موزوں نہیں ہے جس کے باعث معذور افراد گھر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ حیران کن نہیں ہے کیوں کہ وہ شہر میں آزادانہ طور پر چہل قدمی نہیں کرسکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور مشکل شہر کا گنجان آباد ہونا ہے۔ کراچی میں اس قدر جگہ نہیں کہ خصوی پارکنگ لاٹ یا معذور افراد کے لیے مخصوص راستے تعمیر کیے جاسکیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here