یونیورسٹی آف پشاور کی جانب سے فیس ادا کرنے کا تقاضا‘ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے طالب علموں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی

0
4635

پشاور (احسان داوڑ سے) یونیورسٹی آف پشاور کے قبائلی ہاسٹل میں قیام پذیر شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالب علم رحیم اللہ کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
وہ جون 2014ء میں عسکریت پسندوں کے خلاف شروع ہونے والے آپریشن ضربِ عضب کے بعد جب شمالی وزیرستان سے ایک طالب علم کے طور پر نقل مکانی کرکے پشاور آئے تو حکام نے رحیم اللہ جیسے طالب علموں کو تعلیم کی بلامعاوضہ سہولیات فراہم کرنے کی پیش کش کی۔
رحیم اللہ اور دیگر طالب علموں کو قبائلی علاقوں کے کالجوں سے پاکستان کے دیگر تعلیمی اداروں میں منتقل ہونے کے پیچیدہ طریقۂ کار سے گزرنا پڑا جس کے بعد ان کا نہ صرف داخلہ ممکن ہوا بلکہ وہ کئی ماہ تک کالج بھی جاتے رہے۔
اب مارچ کا مہینہ چل رہا ہے‘ جب طالب علموں کو سالانہ امتحانات میں شرکت کے لیے فارم جمع کروانا ہوتے ہیں۔ لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے رحیم اللہ اور نقل مکانی کرنے والے دیگر طالب علموں سے کہاہے کہ وہ امتحانات میں شریک ہونے کے لیے فیس جمع کروائیں۔
رحیم اللہ کہتے ہیں:’’ میں نہیں جانتا کہ مجھے اب کیا کرنا ہے۔کیا مجھے تعلیمی سلسلہ منقطع کردینا چاہیے یا احتجاج کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ میرے اس قدر وسائل نہیں ہیں کہ یونیورسٹی کی بھاری بھرکم فیس ادا کرسکوں۔‘‘ وہ شمالی وزیرستان کے ہیڈکوارٹر میرانشاہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
رحم اللہ نے کہا کہ وہ مختلف مدوں میں واجبات ادا نہیں کرسکتے جن میں ہاسٹل، امتحانات، مائیگریشن اور دیگر فیسیں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ عسکریت پسندی کے باعث میرانشاہ میں میرے والد کا کاروبار تباہ ہوگیا۔ میں پیسوں کا بندوبست کس طرح کرسکتا ہوں؟‘‘
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے وہ طالب علم جنہوں نے نیوز لینز سے بات کی، ان میں امتیاز وزیر بھی شامل تھے جو قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے رہنما اور نمائندے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کے فیصلے کے باعث شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالب علموں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
انہوں نے کہا:’’ ہم ان حالات میں تعلیم پر دھیان نہیں دے سکتے کیوں کہ ہم سے روز فیس ادا کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے جب کہ یہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے ۔ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لیے تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا پہلے ہی مشکل ہورہا ہے اور اگر انتظامیہ اس فیصلے پر نظرثانی نہیں کرتی تو اس سے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کی اعلیٰ تعلیم پر سنجیدہ نوعیت کے اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
اسی گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک اور طالب علم افتخار داوڑ نے کہا کہ ستمبر 2014ء میں ہونے والے وائس چانسلرز کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ نقل مکانی کرنے والے طالب علموں سے کسی یونیورسٹی میں بھی داخلے کی کوئی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے اجلاس کے اہم نکات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:’’ یونیورسٹی انتظامیہ نے اب ایک اور نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے جس میں نقل مکانی کرنے والے طالب علموں سے ہاسٹل اور امتحانات کی فیس جمع کروانے کے لیے کہا گیا ہے کیوں کہ یونیورسٹی کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘
تاہم ایم ایس سی نفسیات کے طالب علم عادل داوڑ نے کہا کہ ان کے شعبہ کی جانب سے ان کی تمام فیسوں کو معاف کیا جاچکا ہے۔
انہوں نے کہا:’’ شعبۂ نفسیات کی سربراہ نے مجھ سے کہا کہ آپ سے کوئی فیس وصول نہیں کی جائے گی لیکن اب میں خوف زدہ ہوں کیوں کہ میں نے مختلف شعبوں کی صورتِ حال دیکھی ہے۔ اگر دیگر شعبوں کے طالب علموں سے فیس کی ادائیگی کے لیے کہا جارہا ہے تو ہم سے بھی ایسا کرنے کے لیے کہا جاسکتا ہے۔‘‘
قانون کے ایک طالب علم نے کہا کہ وہ اور وزیرستان سے تعلق رکھنے والے دیگر طالب علموں نے خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیرِ تعلیم مشتاق غنی سے ملاقات کی اور ان کو یونیورسٹی کی دہری پالیسی کے متعلق آگاہ کیا۔
احمد اللہ نے کہا :’’ وزیرِ تعلیم نے کہا کہ صوبائی حکومت کووفاق اور نہ ہی عالمی امدادی اداروں کی جانب سے نقل مکانی کرنے والے طالب علموں کی امداد کے لیے کوئی فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔‘‘
معاشیات کے طالب علم عطاء اللہ نے کہا:’’ ہم آگاہ نہیں ہیں کہ انہوں نے ہمارے نام پر کیا کچھ حاصل کیا ہے لیکن اب انہوں نے انکار کر دیا ہے۔‘‘
گروپ میں شامل طالب علم متفکر ہیں‘ ان میں سے بیش تر غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور فیس ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
ایک طالب علم نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے خاندان کی جانب سے زونگ (Zong)کے ذریعے ارسال کی گئی رقم کے حصول کے منتظر ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ میرے والد وفات پاچکے ہیں ‘ پشاور میں میرے لیے اپنے خاندان اور دوستوں سے دور اپنے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہورہا ہے۔میں زونگ کے ذریعے رقوم وصول کرتا ہوں جو اکثر اوقات تاخیر سے ملتی ہیں یا اکثر مل ہی نہیں پاتیں ۔ان حالات میں جب میرے لیے اپنے ذاتی اخراجات برداشت کرنا مشکل ہورہا ہے تو یونیورسٹی کی فیس کس طرح ادا کرسکتا ہوں؟‘‘
نیوز لینز نے یونیورسٹی آف پشاور کے وائس چانسلر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جو ممکن نہیں ہوسکا۔ انتظامیہ کے ایک رُکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ یونیورسٹی اس وقت سنجیدہ نوعیت کے مالی بحران کا سامنا کررہی ہے جس کے باعث نقل مکانی کرنے والے طالب علموں کے اخراجات برداشت کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ ہم نے ان کو بلامعاوضہ تعلیم فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا کیوں کہ ہم ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز کے اجراء کی امید کررہے تھے لیکن ان میں سے کسی کی جانب سے بھی کوئی مدد نہیں کی گئی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ نقل مکانی کرنے والے طالب علموں کو اپنے تعلیمی اخراجات خود برداشت کرنا ہوں گے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن پشاور کے ڈائریکٹر ظہیر احمد اعوان نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یونیورسٹیوں کو مالی معاونت فراہم کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔
انہوں نے کہا :’’ یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا اور اب انہوں نے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں جن کے باعث طالب علم خوش نہیں ہیں۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ صرف یونیورسٹی آف پشاور کے طالب علموں کو ہی ایسے حالات کا سامنا نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا کی دیگر یونیورسٹیوں نے بھی فوجی آپریشن کے باعث شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے طالب علموں سے فیس ادا کرنے کا تقاضا کرنا شروع کر دیا ہے۔
امتیاز وزیر نے کہا:’’ میرے خیال میں یہ حالات انتہائی تشویش ناک ہیں۔ اگر حکومت ان طالب علموں کے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کرتی تو اس صورت میں وہ عسکریت پسندی کی جانب راغب ہوسکتے ہیں۔‘‘
یونیورسٹی آف پشاور کے طالب علموں نے خبر دار کیا کہ اگر یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ان کے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کیے جاتے تو وہ احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here