خیبر ایجنسی (اشرف الدین پیرزادہ سے) گنڈی عبدالخیل صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے صرف آٹھ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس گاؤں میں سنگِ مرمر کی تین فیکٹریاں قائم ہیں جہاں پر ماربل کی اعلیٰ معیار کی ٹائلیں بنائی جاتی ہیں اور یہ ملک بھر میں فروخت کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔لیکن اس گاؤں کے باسی پینے کے صاف پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔
20برس کا جمعہ خان ایک قریبی فیکٹری میں کام کرتا ہے‘ وہ کہتا ہے کہ وہ اس بات کا بُرا نہیں مانتا کہ گنڈی عبدالخیل کے باسیوں کی پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کوروزگار کے مواقع دستیاب ہوں تاکہ وہ بچوں کی مناسب انداز سے کفالت کرنے کے قابل ہوسکیں۔
وہ کہتا ہے:’’ میں فیکٹری میں روزانہ کم از کم 10گھنٹے کام کرتا ہوں لیکن ایک دیہاڑی کا صرف تین سو روپے معاوضہ ملتا ہے۔یہ فیکٹری میں کام کرنے والے ان محنت کشوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا غیر انسانی سلوک ہے جو کئی کئی گھنٹوں تک بلیڈوں اور بھاری بھرکم پتھروں کے ساتھ فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔اگرچہ گاؤں میں ماربل کی تین بڑی فیکٹریاں قائم ہیں لیکن حکام اس کے باوجود اس کی ترقی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کررہے۔ حکومت فیکٹری مالکان کو محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافے اور ان کو دیگر سہولیات فراہم کرنے پر مجبور کرکے گاؤں کے باسیوں کی زندگی بہتر بناسکتی ہے جن کی بیش تر تعدادان فیکٹریوں میں کام کرتی ہے۔ ‘‘
پاکستان کے دستور میں محنت کشوں کے حقوق سے متعلق بہت سی شقیں شامل ہیں اور ملک میں نافذقانون کے تحت کسی بھی محنت کش کو ملازمت دیتے ہوئے کچھ شرائط پرعمل کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکتے۔ تاہم آئین اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے نافذ قوانین پاک افغان سرحد سے متصل وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں پر لاگو نہیں ہوتے جہاں گنڈی عبدالخیل نامی یہ گاؤں آباد ہے۔
آئینِ پاکستان کے تحت فاٹا کو خصوصی مقام حاصل ہے جسے متعصب قوانین کے تحت منتظم کیا جاتا ہے جن میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز یا ایف سی آر شامل ہیں جن کا تعلق برطانوی راج کے عہد سے ہے جنہوں نے قبائلیوں کی ممکنہ بغاوت کو کچلنے کے لیے یہ قوانین تشکیل دیے۔
ایف سی آر کے تحت تین بنیادی حقوق جیسا کہ سزاء میں تبدیلی کے خلاف اپیل، قانونی نمائندگی اور عدالت میں شواہد پیش کرنے جیسے قوانین کا فاٹا کے باسیوں پر اطلاق نہیں ہوتا۔ اسی طرح فاٹا میں نافذ متوازی انتظامی ڈھانچہ قبائلیوں کووہ حقوق اور قانونی تحفظ فراہم نہیں کرتا جو پاکستان کے دیگر شہریوں کو حاصل ہے۔
جمعہ خان کہتا ہے کہ سنگِ مرمر کی ان فیکٹریوں سے تمام تر فوائد مالکان حاصل کرتے ہیں جن کی گاؤں کے باسیوں کی فلاح میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ گاؤں میں لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول قائم کیے جائیں تاکہ ان کا مستقبل درخشاں ہو۔
جمعہ خان نے کہا:’’ میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے بھی میری طرح دیہاڑی دار مزدور بنیں۔ میری خواہش ہے کہ میرا بیٹا ڈاکٹر اور بیٹی استانی بنے۔‘‘
گاؤں کے باسی کہتے ہیں کہ اگرچہ ان کے گاؤں میں سنگِ مرمر کی تین فیکٹریاں قائم ہیں جو عالمی معیار کی ٹائلیں بنارہی ہیں لیکن گاؤں کے باسیوں کی پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔ پشاور میں فی الوقت زیرِتعمیر پوش رہائشی آبادی ریگی ماڈل ٹاؤن سے متصل اس گاؤں کے باسی لکڑیاں جلا کر کھانا پکاتے ہیں۔گاؤں کے باسیوں کو صحت، تعلیم، پانی اور صفائی ستھرائی کی سہولیات حاصل ہیں اور نہ ہی سرکاری محکموں میں ان کو روزگار کے کوئی مواقع فراہم کیے گئے ہیں جس کے باعث ان کے لیے اپنے خاندانوں کی گزر بسر یقینی بنانا ممکن نہیں رہا۔
گنڈی عبدالخیل کی ساکھ ایک ایسے مقام کی ہے جہاں سنگِ مرمر کی بہترین ٹائلیں بنتی ہیں جس کا تعلق کسی حد تک اس کی تاریخ سے ہے ‘ یہ گاؤں گزشتہ ایک دہائی کے دوران عسکریت پسندی سے متاثر ہوا ہے۔ گنڈی عبدالخیل میں بہت سی تعمیرات عسکریت پسندی سے متعلقہ واقعات میں تباہ ہوچکی ہیں۔ وہ لوگ جو استطاعت رکھتے تھے‘ گاؤں چھوڑ کر جاچکے ہیں اور اب صرف غریب ترین خاندان ہی آباد ہیں۔
جمعہ خان نے کہا:’’ان کے گاؤں میں خطرات کی زد پر رہنے کے علاوہ اب کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا۔‘‘
گاؤں کے باسی خوف زدہ ہیں کہ ان پر نامعلوم مسلح افراد حملہ کرسکتے ہیں جو ایک دہائی پر مشتمل عسکریت پسندی کے دوران کم از کم دو سو شہریوں کو ہلاک کرچکے ہیں۔
جمعہ خان کہتا ہے:’’ علاقہ میں دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے صرف سرچ اور فوجی آپریشن کرنا ہی کافی نہیں ہیں۔ حکام کو لوگوں کی محرومیوں اور ان کی شکایات کے ازالے کے لیے لازمی طور پراقدامات کرنا چاہئیں۔‘‘
ایک طالب علم مستقیم خان آفریدی نے کہا کہ گاؤں میں 14سو خاندان آبادہیں اور اس کی آبادی مجموعی طور پر سات ہزار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور عسکریت پسندی کے باعث گاؤں میں زندگی بسر کرنا تکلیف دہ ہوگیا ہے۔
ایک مرد رپورٹر کے لیے چوں کہ خواتین سے بات کرنا مشکل ہے جس کے باعث گاؤں کے ایک باسی وسیم جان نے کہا کہ خواتین گھریلو استعمال کے لیے تین کلومیٹر دور سے پانی لے کر آتی ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ خواتین عسکریت پسندی سے متاثرہ اس ماحول میں ایک مشکل کام کرتی ہیں۔‘‘
55برس کے وسیم گل نے کہا کہ پشتونوں کے لیے یہ قابلِ قبول نہیں ہے کہ لوگ ان کی بیویوں کو گھروں سے باہر جاتادیکھیں لیکن اکثر اوقات حالات کے باعث خواتین ایسا کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔
17برس کے مسلم آفریدی نے تجویز پیش کی کہ اگر حکومت مستقل اور طویل دورانیے کے لیے ہونے والی بجلی کی بندش پر قابو پالیتی ہے تو وہ غالباً موسمی فصلیں جیسا کہ گندم اور چاول کاشت کرسکتے ہیں۔
مسلم آفریدی نے کہا:’’ عسکریت پسندی کے باعث پیدا ہونے والے مسائل سے نپٹنے کے لیے حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے معاونت فراہم کیے جانے کی ضرورت ہے۔‘‘
ایک موبائل سافٹ ویئر انجینئر ثاقب علی خان نے کہا کہ حکومت کو عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں کے نوجوانوں کے لیے تعلیم، صحت اور تکنیکی تعلیم کے محکموں میں ملازمت کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں ۔
انہوں نے کہا کہ سنگِ مرمر کی فیکٹریاں ان کے گاؤں سے غربت ختم کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوسکتیں۔ انہوں نے کہا:’’ بہت سے ایسے متوازی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے جن سے مقامی آبادی کو فائدہ پہنچے۔‘‘
سلیم آفریدی ایک ریٹائرڈ سپاہی ہیں‘ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے مکان کی تعمیر پر 26لاکھ روپے خرچ کیے لیکن تشدد کے باعث وہ علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونے پر مجبور ہوئے جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں بتا سکتے کیوں کہ وہ حکومت کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ لڑتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ میں نے 24برس تک سرکاری ملازمت کی ہے اور اب میں حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے۔ میَں نے اپنی زندگی کے بہترین ماہ و سال اپنے وطن کے لیے وقف کیے ہیں۔‘‘