ٹھٹھہ: مکلی پہاڑ پر ہونے والے دھماکے‘ شہر کی تاریخی عمارتوں کے لیے خطرہ بن گئے

0
3600

ٹھٹھہ( اقبال خواجہ سے) نیوز لینز کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق مکلی اور اس کے گرد و نواح میں کان کنی کی سرگرمیوں اور کرشنگ پلانٹوں کی بڑے پیمانے پر تنصیب کے باعث شہر میں قائم ایشیاء کا دوسرا بڑا قبرستان، شاندار مقبرے، گنجان آباد علاقے، ضلعی جیل، سٹیڈیم،ترک حکومت کی جانب سے 2010ء کے سیلاب متاثرین کے لیے تعمیر کیا گیا رہائشی کمپلیکس اور شاندار پس منظر کے حامل تعلیمی ادارے خطرے کی زد پر ہیں۔ 
مکلی کی رہائشی سابق رکنِ صوبائی اسمبلی حمیرا علوانی نے کہاکہ جی بالکل! یہ درست ہے۔ انہوں نے کہا:’’دن بھر ہونے والے دھماکوں کی گونج مقامی رہائشیوں، طالب علموں، مزدوروں اور تمام شعبۂ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی سماعتوں سے ٹکراتی رہتی ہے اور اکثر اوقات زمین میں تھرتھراہٹ سی محسوس ہوتی ہے‘ ہم اس سب سے تنگ آچکے ہیں۔‘‘
نیوز لینز پاکستان نے جب سابق رکنِ صوبائی اسمبلی اور پاکستان پیپلز پارٹی ٹھٹھہ شاخ کے جنرل سیکرٹری صادق علی میمن سے اس بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ٹھٹھہ سیمنٹ فیکٹری، آرمی پبلک سکول و کالج اور حال ہی میں تعمیر ہونے والی بلند و بالا چار دیواری کی حامل ڈسٹرکٹ جیل، ترکوں کی امداد سے 2010ء کے سیلاب کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کے لیے تعمیر ہونے والے دو ہزار گھروں پر مشتمل ایک بڑے رہائشی کمپلیکس کے قرب و جوار میں ایک درجن سے زائد کرشنگ پلانٹ کام کر رہے ہیں۔
صادق علی میمن نے مزید کہا کہ چٹانوں کو بارود سے توڑ کر اس کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا معمول کی ایک سرگرمی بن چکا ہے جن سے بعدازاں مختلف طرح کے پتھر بنائے جاتے ہیں جن میں ریتی بجری بھی شامل ہے‘ اس عمل کے باعث علاقے میں ہمہ وقت دھماکوں کی گونج سنائی دیتی رہتی ہے جس سے تعمیرات متاثر ہورہی ہیں‘ ان میں سے بہت سی تباہ حالی کا شکار ہوچکی ہیں اور ان میں دراڑیں پڑگئی ہیں۔
گورنمنٹ کالج مکلی کے پرنسپل اور معروف محقق ڈاکٹر محمد علی مانجھی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ کان کنی اور کرشنگ پلانٹوں کے لیے پتھروں کو کاٹنے کے لیے کیے جانے والے دھماکوں کے باعث آرمی پبلک سکول و کالج، کانسیپٹ سکول و کالج، سٹی سکول، شاہ لطیف پبلک سکول، مخدوم ہائی سکول، نیوی گیٹر سکول و کالج، وزڈم سکول، مشعل سکول و بڑی تعداد میں سرکاری و نجی تعلیمی ادارے متاثر ہورہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد علی مانجھی ایک تاریخ دان ہونے کے علاوہ محکمۂ ثقافت سندھ کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے ہیں‘ انہوں نے وضاحت کی کہ مستقل طور پر ہونے والے ان دھماکوں کے باعث مکلی میں پہلے سے ہی قائم یا مستقبل میں تعمیر ہونے والی عمارتوں کو ہی خطرات لاحق نہیں ہوئے ہیں بلکہ چار مختلف ادوارِ حکومت کے حکمرانوں کے شاندار مقبرے جن میں جام نظام الدین، عیسیٰ خان ترکھان، دولہ دریا خان، مائی ماکلی، کالاکوٹ اور دیگر اہم تاریخی مقامات بھی شامل ہیں‘ خطرے کی زد پر ہیں۔
نیوز لینز پاکستان نے جب چند نجی کرشنگ پلانٹوں کے مالکان ، جن کی اکثریت پشتونوں پر مشتمل ہے، سے رابطہ کیا تو ان میں سے ایک یوسف خان نے واضح طور پر کہاکہ ہم اپنا کاروبار کرنے کے لیے متعلقہ حکام کو رشوت دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قوم پرست جماعتوں اور برسرِاقتدار پارٹی کے کچھ عہدیدار اور کارکن بھی بلامعاوضہ ریتی اور بجری لیتے ہیں جس کے باعث وہ ہمارے کاروباری مفادات کو نقصان پہنچانے سے باز رہتے ہیں۔
انہوں نے واضح طور پر یہ تسلیم کیاکہ متعلقہ حکام بھی ہر ماہ اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور سماجی و سیاسی طور پر اثر و رسوخ کی حامل شخصیات حکام کی چشم پوشی کے باعث متعدد مقامات پر غیرقانونی طور پر سیاہ و سفید کی مالک بنی بیٹھی ہیں اور ہمارے کاروبار سے بڑے پیمانے پر منافع حاصل کر رہی ہیں۔ 
پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کونسل کے رُکن ڈاکٹر الطاف خواجہ اور ذی فہم سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد، جن میں قومی عوامی تحریک سندھ کے صوبائی نائب صدر دادا قادر رانٹو بھی شامل ہیں، اور مکلی پہاڑ کے باسیوں نے کہا کہ یہ علاقہ کراچی، حیدرآباد، بدین، کیٹی بندر، سجاول اور دیگر اہم قصبوں اور علاقوں کے درمیان راہداری کی حیثیت رکھتا ہے او ر انہوں نے علاقے کو اس تباہی سے بچانے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here