لاہور (احسان قادر سے) پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں مسلم اکثریتی علاقے میں تقسیم سے قبل قائم ہونے والے شمشان گھاٹ کے ازسرنوِافتتاح سے قبل ہی لینڈ مافیا نے اس پر قبضہ کرلیا ہے جس کے باعث مقامی ہندو اب اپنے پیاروں کی آخری رسومات اپنے گھروں کے قریب ادا نہیں کرسکتے۔
ہندو کمیونٹی کے نمائندوں کی پٹیشن کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب کی صوبائی حکومت کو اگست 2012ء میں زمین کو قبضہ مافیا سے واگزار کروا کر 14,200مربع فٹ اراضی پر 25دسمبر 2013ء تک شمشان گھاٹ تعمیر کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ صوبائی حکام نے مئی 2014ء تک کام مکمل کرلیا اور 24مئی کا دن افتتاح کے لیے مخصوص کیا گیا۔ تاہم اس کا ہنوز افتتاح نہیں ہوسکا جس کے باعث مقامی ہندوؤں میں اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا کرنے کے حوالے سے مایوسی کا احساس جنم لے رہا ہے۔
نیوز لینز کو انٹرویو دیتے ہوئے ہندوؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ہندو سدھار سبھا کے صدر امرناتھ رندھاوا نے شمشان گھاٹ پر قبضہ کیے جانے پر انتظامیہ کی جانب سے لینڈ مافیا سے ہار مان لینے پر مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا:’’شہر میں ہندو مرحومین کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے کوئی مقام نہیں۔ ہم نے یہ شمشان گھاٹ مختلف عدالتوں میں 25برس تک قبضہ مافیا کے خلاف عدالتی جنگ لڑنے کے بعد حاصل کیا اور بالآخر سپریم کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ دے دیا۔ ہم نے 24مئی کو افتتاح کے انتظامات مکمل کر لیے تھے لیکن قبضہ مافیا نے 23اور 24مئی کی درمیانی شب غنڈوں کے ساتھ دھاوا بول دیا اور شمشان گھاٹ کے افتتاح سے زبردستی روک دیا ۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ قبضہ مافیا ایک مسلم بزرگ بابا حویلی شاہ کا نام لیتا ہے جب کہ ان کی قبر پر ان کے نام کا تعویزبھی نصب کر دیا گیا ہے۔قبضہ مافیا کے سرغنہ نے اپنے ساتھ آنے والے غنڈوں کو اکسایا کہ ہندو ایک مسلمان بزرگ کی قبر کی بے حرمتی کررہے ہیں جس کے بعد سے ہم نے صدرِ پاکستان سے لے کر مقامی حکومت کے اعلیٰ حکام تک سب کو ہی خطوط لکھے ہیں لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔‘‘
ہندوؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم پاکستان بالمک سبھا کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی 25لاکھ سے زائد ہے جب کہ لاہور میںآباد ہندوؤں کی تعداد صرف 400ہے۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنسز کے مقامی ہندو طالب علم 24برس کے سمیر نے کہا کہ قبضہ مافیا نے ان کو شمشان گھاٹ سے محروم کر دیا ہے۔ انہوں نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہمارے والدین آخری رسومات کی ادائیگی کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں۔ ہم کئی نسلوں سے پاکستانی ہیں اورہم چاہتے ہیں کہ لاہور میں ہی آخری رسومات کی ادائیگی کا حق دیا جائے۔‘‘
نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے 81برس کے ہیرا لال نے کہا کہ وہ الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا:’’ میں لاہور میں پیدا ہوا اور اسی دھرتی پر مرنا چاہتا ہوں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہمیں بنیادی حقوق فراہم کرے۔‘‘ 71برس کے راج کماری نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں قبضہ مافیا کا رُکن قرار دیے گئے عبدالاسلام نے نیوز لینز سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شمشان گھاٹ‘ مسیحیوں، مسلمانوں اور بہائیوں کے قبرستان سے متصل ہے اور اس کا ہندوؤں سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا’’یہ قطعۂ اراضی مشترکہ قبرستان کا حصہ تھی لیکن امرناتھ رندھاوا کی قیادت میں ہندو لینڈ مافیا اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے مسلمان صوفی بزرگ بابا حویلی شاہ کی قبر پر بابا حویلی رام کے نام کا کتبہ نصب کرکے اس کی بے حرمتی کی ہے اور ان کو ایک ہندو قرار دے ڈالا ہے جس پر مسلمان مشتعل ہوگئے ہیں۔یہ وہ وجہ ہے جس پر ہم مقامی سیاست دانوں نے مداخلت کی اور شمشان گھاٹ کے افتتاح کو روک دیا۔‘‘انہوں نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات کے پیشِ نظر ہندوؤں کے لیے شمشان گھاٹ کی تعمیر کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’ لیکن ہم اس قطعۂ اراضی میں موجود مسلمان بزرگ کی قبر کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیں گے ‘ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات سے قبل یہ قطعۂ اراضی مشترکہ قبرستان کا حصہ تھی۔‘‘
نیوزلینز سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے شالیمار ٹاؤن کے اسسٹنٹ کمشنر نے کہا کہ وہ اخلاقی و قانونی عوامل کی بنا پر ہندوؤں کے لیے شمشان گھاٹ کی تعمیر کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ لیکن مسلمانوں میں اس حوالے سے بہت زیادہ اشتعال پایا جاتا ہے۔ مقامی حکام اس وقت بے بس ہیں۔‘‘ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اس حوالے سے اعلیٰ حکام سے بات کریں گے۔