صحرائے تھر کی سوز میں ڈوبی آواز کی گونج اب امریکہ میں بھی سنائی دے گی

0
4460

: Photo By News Lens Pakistan / Allah Bux Arisar

عمر کوٹ (اللہ بخش اریسار سے) مائی دھائی منگنیار صحرائے تھر کی وہ اولین فوک گلوکارہ ہیں جو امریکہ میں نہ صرف اپنے سُروں کاجادو جگائیں گی بلکہ رواں ماہ ہونے والے موسیقی کے دنیا کے چند بڑے میلوں میں سے ایک میں پاکستان کی نمائند گی بھی کریں گی۔
60برس کی مائی دھائی موسیقاروں کے غریب منگنیار گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور جب وہ سٹیج پر روایتی پردہ کیے پرفارم کر رہی ہوتی ہیں تو لوگوں کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔ وہ اس پاکستانی طائفے کا حصہ ہیں جو آسٹن، ٹیکساس کے ساؤتھ بائے ساؤتھ ویسٹ فیسٹیول SxSW))کے زیرِاہتمام منعقد ہونے والے موسیقی کے دنیا کے چندبڑے میلوں میں سے ایک میں شرکت کر رہا ہے۔
مائی دھائی نے پہلی بار 2002ء میں سٹیج پر پرفارم کیا‘ان کی کانوں میں رَس گھولتی گائیکی تھرپارکر سے تعلق رکھنے والی ایک اور منگنیاری گلوکارہ مائی بھاگی سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے جنہیں بلبلِ تھر کہا جاتا ہے۔ مائی دھائی نے سات برس کی عمر میں گائیکی شروع کی لیکن طویل عرصہ تک سٹیج پر پرفارم نہیں کیا۔ اس بارے میں نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے خاوند مردوں کی موجودگی میں خواتین کی گائیکی کے خلاف تھے۔ ایک مقامی سیاست دان سید سردار شاہ نے ان کے خاوند کو مجبور کیا کہ وہ ان کو سٹیج پر پرفارم کرنے دیں جس کے باعث ان کو اس شرط کے ساتھ سٹیج پر پرفارم کرنے کی اجازت مل گئی کہ وہ باپردہ رہتے ہوئے گائیکی کریں گی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پھیلا ہوا صحرائے تھر غربت، خشک سالی اور ریت کے ٹیلوں کی بنا پر معروف ہے۔صحرائے تھر کے بہت سے معروف گلوکار وں کا تعلق عمرکوٹ اور تھرپارکر کے قصبوں سے ہے جن میں مائی بھاگی، استاد شفیع فقیر، استاد شادی خان، کریم فقیر، استاد اللہ بچایو، رفیق فقیر اور رجب فقیر شامل ہیں‘ یہ ایسے فوک گلوکار ہیں جو سرحد کے اطراف میں یکساں طور پر معروف ہیں۔ یہ تمام گلوکار ’فقیر‘ کہلاتے ہیں اور صحرائے تھر کے منگنیار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ منگنیار خوشی کی تقریبات جیسا کہ بچوں کی پیدائش، شادی بیاہ،مختلف تہواروں، فصلوں کی کٹائی، دیہاتی میلوں اور صوفیوں کے مزاروں پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
مائی دھائی کے خاندان سمیت منگنیار سندھ اور راجھستان کے صوبوں میں آباد ہیں جو بالترتیب پاکستان اور انڈیا کا حصہ ہیں اور انہیں خدا کی جانب سے سُریلی آواز سے نوازا گیا ہے ‘ یہ مدھر دھنیں تشکیل دیتے ہیں جو دل کو چھو لیتی ہیں۔ مائی دھائی علاقے میں ہونے والی شادی بیاہ کی تقریبات اور مختلف میلوں ٹھیلوں میں خواتین کی موجودگی میں گاتی ہیں جس کے باعث وہ نہ صرف کچھ نہ کچھ کمانے کے قابل ہوجاتی ہیں بلکہ اپنے خاندان کی مدد بھی کرتی ہیں۔ ایک معروف مقامی کہاوت ہے :’’ منگنیار روتے بھی سُر میں ہیں۔‘‘
فاؤنڈیشن آف آرٹس، کلچر اور ایجوکیشن (ایف اے سی ای) کی نمائندہ مہناز نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آسٹن، ٹیکساس کے ساؤتھ بائے ساؤتھ ویسٹ فیسٹیول کے زیرِاہتمام رواں ماہ دنیا کے چند بڑے میلوں میں سے ایک میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے منتخب کیے گئے چھ فنکاروں میں سے ایک مائی دھائی بھی ہیں۔ SxSW کے تحت آسٹن، امریکہ میں مائی دھائی انٹرنیشنل ڈے سٹیج اور رشین ہاؤس میں بھی پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہوں گی۔
اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے امریکہ جانے کے حوالے سے مائی دھائی نے کہا کہ ناخواندہ اور غریب گاؤں سے تعلق رکھنے کے باعث انہوں نے کبھی پاکستان کے کسی بڑے شہر میں بھی جانے کا نہیں سوچا تھا اور اب وہ امریکہ جارہی ہیں۔ اگرچہ مائی دھائی کو بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل ہوچکی ہے لیکن وہ اب بھی اپنے مویشیوں کو چارہ کھلاتی ہیں اور اپنے خاندان کے لیے پکوان تیار کرنے کے علاوہ مقامی تقریبات میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here