ٹھٹھہ: ماہی گیر روزگار کے متبادل ذرائع کی تلاش میں نقل مکانی کرنے پر مجبور

0
3500

ٹھٹھہ (اقبال خواجہ سے) ٹھٹھہ اور سجاول کے اضلاع کے اطراف میں پھیلے انڈس ڈیلٹا سے ماہی گیروں کی ایک بڑی تعداد کراچی، گوادر اور اندرونِ سندھ کے مختلف علاقوں کی جانب ہجرت کررہی ہے ۔
پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین سید محمد علی شاہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بہت سی وجوہات کے باعث ماہی گیروں اور محنت کشوں نے صوبے کے جنوبی علاقوں سے اندرونِ سندھ نقل مکانی کی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ کوٹری کے مقام پر پانی جاری نہ کیے جانے، پاکستان کی آبی سرحد سے بھارتی بحری فورس کی جانب سے ماہی گیروں کومستقل طور پر حراست میں لیے جانے اور ذرائع معاش میں کمی وہ بنیادی وجوہات ہیں جنہوں نے ماہی گیروں کو اپنی دھرتی چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔
سید محمد علی شاہ نے انکشاف کیا کہ ساحلی جزیرے خاروچان اور مختلف آبادیوں جیسا کہ کیٹی بندر، گھوڑاباری، سجن واری،مورچھڈائی، بابیہو، جھالو، اداسی، شاہ بندر اور جاتی سے پانچ ہزار ماہی گیر روزگار کے مواقع کی تلاش میں پہلے ہی نقل مکانی کرچکے ہیں۔
کاتیار قبیلے کے سربراہ غنی کاتیار نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم اپنے خاندان کے ارکان کو گجرات اور راجھستان کی جیلوں سے چھڑوانے کے لیے مدد کی اپیلیں کرکرکے تھک چکے ہیں جس کے باعث اب لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ دوسرے علاقوں کی جانب ہجرت کرجائیں اور مزدوری تلاش کریں۔‘‘
سندھ کی وزیربرائے سیاحت و ثقافت سسی پلیجو نے کہا کہ سجاول ،بدین اور ٹھٹھہ کے اضلاع میں ڈیلٹائی حصوں پر منفی اثرات کے مرتب ہونے، چمرنگ کے ناپید ہوتے ہوئے جنگلات اورزرعی اراضی کا بڑا رقبہ سمندر برد ہونے کے باعث نقل مکانی کرنے کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھی ہے۔ 
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سابق رکنِ صوبائی اسمبلی حمیرا الوانی نے انکشاف کیا کہ تقریباً5768ایکٹر زرعی اراضی پانی کی کمی کے باعث بنجر ہوچکی ہے۔ اس وقت لیفٹ بنک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی) 28سو کیوسک زہریلاپانی انڈس ڈیلٹا میں شامل کر رہی ہے جس سے مچھلیوں کی افزائش خطرے میں پڑگئی ہے۔ دوسری جانب رائٹ بنک آؤٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) بھی تقریباً35سو پی پی ایم زہریلا مواد خارج کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں مچھلیوں کو پکڑنے کے جال، جو مقامی طور پر ’’بولو اور گوجو‘‘ کہلاتے ہیں،انڈس ڈیلٹا کے خطے میں مچھلیوں کی بقاء پر منفی طور پر اثرانداز ہورہے ہیں جس کے باعث غریب ماہی گیر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
سندھ کابینہ میں صوبائی وزیر اور ساحلی حلقے جاتی سے منتخب ہونے والے رکنِ صوبائی اسمبلی محمد علی ملکانی ڈیلٹائی آبادی کی مشکلات کا ادراک کرنے کے بجائے پرامید دکھائی دیتے ہیں۔ وہ گرفتارہونے والے ماہی گیروں کی رہائی کے حوالے سے پڑوسی ملک کی جانب سے فوری اقدامات کیے جانے کی کوئی امید نہیں رکھتے تاوقتیکہ متنازعہ’’سرکریک‘‘ کا کوئی مستقل حل نہیں نکل آتا‘یہ 98کلومیٹر طویل آبی پٹی ہے جو رَن آف کچھ کے دلدلی علاقے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کی وجہ ہے۔ مزیدبرآں تواتر کے ساتھ آنے والی فطری تباہ کاریوں اور انسان کی اپنی پیدا کردہ تباہی و بربادی کے باعث انڈس ڈیلٹا سے نقل مکانی جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک عوامی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے وہ ان علاقوں میں روزگار کے متبادل ذرائع پیدا کرکے ساحلی علاقوں کی آبادی کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here