اپنوں اور سماج کی بے رُخی کے باعث زندگی بھر اذیت سہنے پر مجبور‘سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود شناختی کارڈ جاری نہیں کیے گئے
پشاور (اظہاراللہ سے) مسرت اس وقت اپنے گھر سے بھاگی جب وہ 15برس کی تھی۔ وہ افغانستان سے متصل سرحدی علاقے باجوڑ ایجنسی سے خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور آگئی۔
جب وہ پشاور آئی تو اس کے پاس کوئی ایسا ٹھکانہ نہیں تھا جہاں وہ پناہ لیتی ‘ اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ شہر میں اپنی ہی طرح کی خواجہ سرا کمیونٹی کو تلاش کرتی۔
مسرت نے پرانے شہر میں شادی کی ایک تقریب میں پرفارم کرنے کے لیے میک اَپ کرتے ہوئے کہا:’’ میں نے اپنا گھر اس لیے چھوڑا کیوں کہ میرے والدین مجھے اس روپ میں قبول کرنے پر تیار نہیں تھے جیسی کہ میں ہوں۔میں اپنے والدین کو یاد نہیں کرتی لیکن میں اپنی پھوپھی سے ضرور محبت کرتی ہے کیوں کہ جب بھی مجھے میرے والد سے مارپڑتی تو وہ مجھے بچانے کی کوشش کیا کرتیں۔‘‘
مسرت اپنی پھوپھی کووقتاً فوقتاً رقم ارسال کرتی رہتی ہے۔ اس نے انہیں اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا بلکہ ان سے یہ جھوٹ بولا کہ’’ میں راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں ویٹر کے طور پر کام کرتی ہوں۔‘‘
اس کے بچپن کے دنوں میں اسے اکثر اوقات تنگ کیا جاتا اور ایسا کرنے والے گاؤں کے ہی لڑکے اور مرد حضرات تھے جس کے باعث اس کو اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا کیوں کہ اس کی موجودگی کے باعث اس کے والدین کے لیے ’’سماجی مسائل اور مشکلات‘‘ پیدا ہورہی تھیں۔
یہ اس کی زندگی کا فیصلہ کن موڑ تھاکیوں کہ گھر میں جب بھی کچھ غلط ہوتا تو اس کے والد اس پر چڑھ دوڑتے۔ اس نے کہا:’’ میرے والد مجھے پورے خاندان کے لیے کلنک کا ٹیکہ خیال کرتے تھے۔ جب بھی کچھ غلط ہوتا تو وہ مجھے ذمہ دار ٹھہراتے۔‘‘
مسرت کہتی ہے کہ اب وہ پرانے شہر کے علاقے گل بہار میں اپنی کمیونٹی کے ارکان کے ساتھ رہتی ہے جنہیں لوگ اچھوت خیال کرتے ہیں۔ اپنی جسمانی ساخت اور نفسیاتی انداز کی وجہ سے خواجہ سرا سماج سے یکسر خارج اور الگ تھلگ ہوچکے ہیں اور گروہوں کی صورت میں رہتے ہیں جس کے باعث لوگوں سے ان کا رابطہ بھیک مانگنے، جسم فروشی اور شادیوں میں ناچ گانے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
سماجی ماہرین کے مطابق خواجہ سرا انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں‘ ان میں وہ اہلیت نہیں جس کے باعث وہ کوئی مناسب کام کرسکیں کیوں کہ سماج کی جانب سے ان کو غیر فطری مخلوق خیال کیا جاتا ہے‘ والدین کی جانب سے بھی قبول نہیں کیا جاتا جب کہ سکولوں میں اساتذہ توہین آمیز رویہ اختیارکرتے ہیں اور ساتھی طالب علم تشدد کا نشانہ بناتے ہیں‘ وہ کسی بھی قسم کی ملازمت کے لیے ناموزوں ہیں کیوں کہ سماج کی بیگانگی کے باعث کوئی ملازمت اختیار نہیں کرپاتے۔
یونیورسٹی آف پشاور میں علمِ بشریات کے استاد پروفیسر جمیل احمد چترالی کہتے ہیں:’’ خواجہ سرا سماجی دھارے کا حصہ نہیں بن سکتے‘ یہ خواتین ہیں جو مردوں کے جسم میں خلول کرگئی ہیں‘ وہ مردوں کے تولیدی اعضا ء کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں لیکن خواتین کے طور پر پیش آتے ہیں اور یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث سماج ان کے ساتھ اچھوتوں کا سا رویہ روا رکھتا ہے۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ جب ہمارے اس پدری معاشرے میں خواتین کی بقاء مشکل ہے تو اس صورت میں وہ (خواجہ سرا) کس طرح سماج کا حصہ بن سکتے ہیں؟‘‘
میَں مسرت کے ساتھ اس کے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھا تھا‘ فاروق عرف مادھوری، اس کی یہ عرفیت بالی وڈ کی معروف اداکارہ کے نام پر رکھی گئی ہے‘ آئینے میں خود کو دیکھ رہی تھی اور اپنے بالوں کوسنوار رہی تھی۔ میں جس کمرے میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا‘ اس کا دروازہ کھلا تھا ‘ گلی سے گزرنے والے لوگ چندساعتوں کے لیے رُکتے اور ہمیں گھورنے لگتے۔
میں نے خوشبو سے پوچھا، وہ ایک خواجہ سرا ہے اور فاروق اور مسرت کے ساتھ اسی کمرے میں رہتی ہے ،’’اگر ہم یہ دروازہ بند کردیں؟‘‘ اس نے ترش لہجے میں کہا، جو خواجہ سراؤں کے روایتی انداز سے مماثلت رکھتا تھا، ’’ کیا؟یہ لوگ دروازہ توڑ دیں گے اور تم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔‘‘
مسرت نے پوچھا کہ کیا میں ان کو روزمرہ کے اس استحصال سے نجات دلا سکتا ہوں جن کا وہ سماج کی جانب سے سامنا کرتے ہیں اور پھر میرے لب کھولنے سے قبل خود ہی میرے سوال کا جواب دے ڈالا۔
مسرت نے کہا:’’ نہیں! تم کچھ نہیں کرسکتے۔‘‘
نوجوان اور ادھیڑ عمر افراد پر مشتمل ایک ٹولی کھلے دروازے کے باہر تماشائیوں کے طو رپر کھڑی ہوگئی تھی‘ وہ ایک دوسرے سے سرجوڑے اس فلیٹ میں جھانک رہے تھے جہاں پر خواجہ سرا رہتے تھے۔ ان کمروں میں سے ایک میں بیٹھا شخص مجھ سے میری شناخت معلوم کرنے کے لیے آیا۔ میں نے تعارف کروایا کہ میرا تعلق میڈیا سے ہے۔ اس فلیٹ میں میرے اور اس کے علاوہ باقی تمام ایسے مرد تھے جو عورتوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں‘ انہوں نے خواتین کے سے ملبوسات زیبِ تن کررکھے تھے اور چہروں پر میک اَپ کیا ہوا تھا۔
خوشبو نے میری توجہ دروازہ توڑنے پر تیار نظر آنے والے ہجوم کے معنی خیز جملوں کی جانب مبذول کرواتے ہوئے مجھ سے پوچھا:’’ کیا آپ دروازے کے باہر سے آنے والی آوازیں سن رہے ہیں؟ ہم ہر روز سماج کی جانب سے اسی قسم کے رویے کا سامنا کرتے ہیں، حتیٰ کہ اپنے فلیٹ تک میں محفوظ نہیں ہیں۔‘‘
خوشبو اس فلیٹ میں رہنے والے گروپ کی سربراہ تھی ‘ دوسرے لفظوں میں وہ گورو تھی جس کی بات گھر کا ہر رکن تسلیم کرنے کا پابند ہوتا ہے کیوں کہ وہ ان کی فلاح و بہبود کا نگران ہوتا ہے۔
خوشبو نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اکثر اوقات اوباش نوجوان و مرد شراب کے نشے میں دھت ہوکر آجاتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ان کی جنسی خواہشات پوری کی جائیں۔ ہم کچھ نہیں کرسکتے کیوں کہ یہ لوگ نہ صرف اثر و رسوخ کے حامل ہوتے ہیں بلکہ اگر ہم انکار کریں تو خوفناک نتائج کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔‘‘
علمِ بشریات کے ماہر جمیل چترالی نے کہا کہ خواجہ سرا ؤں کے خاندان ان کو اس لیے تسلیم نہیں کرتے کیوں کہ ان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑرہا ہوتا ہے۔ لوگ ان کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں جس کے باعث ان کو نہ صرف اپنے ہی خاندان کے ارکان کی جانب سے نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ان کے ساتھ توہین آمیز اور نفرت پر مبنی رویہ بھی اختیار کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ سماجی دھارے سے خواجہ سرا کمیونٹی کو خارج کیے جانے کی دو وجوہات ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ سب سے پہلے تو سماج ان کو خارج کررہا ہوتا ہے جب کہ دوسری جانب خواجہ سرا کمیونٹی ان کو اپنا حصہ بننے پر آمادہ کرنے کے لیے کوشاں ہوتی ہے۔ سماج سے خارج کیے جانے کے بعد ایک خواجہ سرا کو اس کی کمیونٹی کی جانب سے مجبور کیا جاتا ے کہ وہ ناچ گا کر اور جسم فروشی کرکے اپنی گزر بسر ممکن بنائے۔‘‘
جب مسرت نے وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقے سے اپنا گھر چھوڑا تواس کی خواجہ سراؤں سے ملاقات ہوئی جن کے توسط سے وہ ان کے گورہ یا سربراہ سے متعارف ہوئی۔ اس نے ان کے ساتھ رہائش اختیار کرلی کیوں کہ اس کے پاس رہنے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں تھی۔
مسرت نے کہا:’’ میں اس وقت نوجوان تھی ‘ میری عمر صرف 15برس تھی جس کے باعث گورو نے مجھے جنسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر مجبور کر نا شروع کر دیا۔ وہ گاہک سے میرے ساتھ رات گزارنے کے ایک ہزار روپے وصول کرتا تھا۔‘‘اس کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی‘ اس نے کہا:’’ میں اس وقت بہت کم عمر تھی جب مجھ سے یہ سب کروایا گیا۔‘‘
گورو کا ایک ’’گاہک‘‘ مسرت کو چار برس قبل جسم فروشی کے لیے جلال آباد، افغانستان لے گیا۔
مردوں کا لباس زیبِ تن کیے مسرت کے ساتھ بیٹھی ایک اور خواجہ سرا کشش نے کہاکہ مرد اس کے ساتھ نہ صرف منفی برتاؤ اختیار کرتے بلکہ زبردستی بھی کرتے‘ وہ اس کے پچھلے حصے میں بوتل اس قدر زور سے گھونپتے کہ وہ اندر ہی ٹوٹ جاتی۔
کشش نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ مجھے اپنے مقعد سے شیشے کی کرچیاں نکلوانے کے لیے آپریشن کروانا پڑا۔میں چاہتی ہوں کہ تبدیلئ جنس کے لیے آپریشن کرواؤں اور اپنا عضوِ تناسل کٹوا دوں کیوں کہ میں ایک عورت بننا چاہتی ہوں۔ میں نے مردوں اور سماج کی جانب سے اس منفی رویے کا سامنا کیا ہے جو وہ ہمارے ساتھ روا رکھتے ہیں۔‘‘
خواجہ سراؤں کا خاندان منفرد نوعیت کا حامل ہوتا ہے جن کا آپس میں عموماًکوئی خونی رشتہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طورپر خوشبو نے مسرت کو اپنی بیٹی بنا رکھاہے۔ اس نے مسرت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’ اس کی جانب دیکھو‘ میں نے اسے اپنی بیٹی بنایا ہوا ہے۔‘‘
خواجہ سرا آپس میں ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے ’’اس کا‘‘ اور ’’اس کی‘‘ کا استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا انتخاب وہ مرد خواجہ سرا یا خاتون خواجہ سرا کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ خواجہ سراؤں میں ’’مرد‘‘ حضرات( اس طرح ’’عورتوں‘‘ کے لیے) کی ظاہری شناخت سے الٹ نام استعمال کرنے کا رجحان عام ہے۔
محقق مُٹی بونزل اپنے تحقیقی مقالے بعنوان ’’ Inverted Appellation and Discursive Gender Insubordination ‘‘ میں رقمطراز ہیں:’’ اس طریقے سے ہم جنس پرست مرد سماجی جنسی معاشرے میں اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے حقارت آمیز رویے کے مقابل فوری طور پرمزاحمت کرنے پرتیار ہوسکتے ہیں اور یوں وہ مزاحمتی طرزِ تحاطب اور نئے سرے سے ترتیب دیے گئے تخلیقی تخیل کے تحت صنف و جنس کی الفاظ و کردار کے ذریعے تشکیل کے عمل میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘
خوشبو نے وضاحت کی:’’ ہماری ایک ماں ہے جسے ہم گورو کہہ کر مخاطب کرتے ہیں‘ بہنیں اور بیٹیاں ہیں لیکن ہماری کمیونٹی میں کوئی شوہر نہیں ہے۔ ہمارے محبوب ، جو حقیقی مرد ہوتے ہیں اور خواجہ سرا نہیں ہوتے، شوہروں کی طرح ہوتے ہیں ‘ وہ اپنے اس شریکِ حیات کے ذمہ دار ہوتے ہیں جس کے ساتھ وہ باہمی رضامندی کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرتے ہیں۔‘‘
اس نے کہا:’’ ہماری دنیامردوں اور عورتوں میں تقسیم نہیں۔‘‘
کچھ سماجی ماہرین کا یہ خیال ہے کہ خواجہ سرا کمیونٹی کا خاندانی ڈھانچہ پدری نظام کو چیلنج کرتا ہے لیکن جمیل چترالی کہتے ہیں کہ درحقیقت یہ پدری نظام کو چیلنج کرنے کے بجائے اسے بڑھاوا دیتا ہے۔ انہوں نے یہ استدلال پیش کیا کہ ان کا نام نہاد خاندانی نظام درحقیقت پدری نظام پر قائم ہے جس میں وہ اپنا گورو ایک خاتون خواجہ سراکے بجائے ایک مرد خواجہ سراکو بناتے ہیں جو ان کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
انہوں نے کہا:’’ وہ بنیادی طور پر عورتوں کو چیلنج کرتے ہیں کیوں کہ وہ خود کو اسی قدر بااختیار کہتے ہیں جس قدر عورتیں ہوتی ہیں۔‘‘
اسی دوران ایک مرد کمرے میں داخل ہوا اور خوشبو کو اپنا قومی شناختی کارڈ دیا‘ خوشبو نے کہا کہ جب بھی ان کے کسی چیلے کو کسی تقریب وغیرہ میں ناچ گانے کے لیے جانا ہوتا ہے تو وہ سکیورٹی وجوہات کے باعث اپنے گاہکوں سے کارڈ لیتی ہیں ‘جیسا کہ مسرت جارہی ہے۔
پشاور میں خوف اور عدم تحفظ کے گہرے ہوتے ہوئے سایوں میں کیا خواجہ سرا خود کو محفوظ خیال کرتے ہیں؟ خوشبو نے کہا کہ وہ عسکریت پسندوں سے خوف زدہ نہیں ہیں اور نہ ہی دہشت گردی کے باعث نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئی ہیں لیکن ان کی سب سے بڑی پریشانی سماج اور پولیس کا ان کے ساتھ رویہ ہے۔
خوشبو نے شکایت کی:’’ جب ہم رات کوگھر واپس لوٹتے ہیں تو پولیس رشوت کا تقاضا کرتی ہے۔‘‘
حکومتِ پاکستان کی جانب سے خواجہ سراؤں کو ہنوز ان کے حقوق فراہم کیے جانے ہیں جس کے لیے کمیونٹی کوشاں ہے۔ 2011ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ خواجہ سرا پاکستان کے برابر کے شہری ہیں۔
جینڈر انٹرایکٹو الائنس کی صدر بندیا رانا ، جو خواجہ سراؤں کے حقوق کی سرگرم کارکن ہیں، نے کرنٹ افیئرز کے ماہانہ جریدے ہیرلڈ سے 2011ء میں بات کرتے ہوئے کہا تھا:’’ حکومت کو ہمیں انسان تسلیم کرنے میں 60برس کا عرصہ لگا ہے اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہوا جب سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ ہمیں خواجہ سرا کے طور پر رجسٹرڈ کیا جائے۔‘‘
سپریم کورٹ نے یہ حکم دینے کے علاوہ نیشنل ڈیٹابیس اینڈرجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو ’’خواجہ سراؤں‘‘ کو رجسٹر کرنے کے لیے ہدایات بھی جاری کیں لیکن پشاور میں خواجہ سراؤں کو ہنوز نادرا کی جانب سے جاری کیے جانے والے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ حاصل نہیں ہوسکے۔
خوشبو کہتی ہیں کہ انہوں نے ایک برس قبل قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لیے تصویروں کے ساتھ فارم جمع کروایا تھا لیکن نادرا کے حکام نے ان کو اب تک شناختی کارڈ جاری نہیں کیا۔ ان کو قبل ازیں جاری ہونے والے شناختی کارڈ میں جنس کے خانے میں ’’مرد‘‘ لکھا ہے۔
خوشبو نے کہا:’’ یہاں پر30خواجہ سرا رہ رہے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کو بھی وہ خصوصی شناختی کارڈ جاری نہیں کیا گیا جس میں خواجہ سرا کا خانہ موجود ہو۔‘‘