بنوں:قبائلی خواتین نفسیاتی عوارض کا شکار ہونے لگیں

0
4710

بنوں ( احسان داوڑ سے) وہ کہتی ہیں کہ وہ جہازوں سے نفرت کرتی ہیں‘ اور جب بھی دعا کرتی ہیں تو ان کو برا بھلا کہتی ہیں۔
45برس کی زبانی بیگم نے کہا: ’’میرا دل اب جذبات سے یکسر عاری ہوچکا ہے۔‘‘ ایک جانب جہاں عام لوگوں کے روز و شب معمول کے مطابق گزر رہے ہیں تو وہ ہمہ وقت برے خواب دیکھتی رہتی ہیں۔
وہ اس خوف سے اپنے بچوں کو باہر نہیں جانے دیتیں کہ کہیں کوئی ان کو قتل نہ کردے۔
وہ کہتی ہیں:’’اگر سب لوگ بھی اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں تو میں واپس نہیں جاؤں گی۔‘‘ ان کی آنکھیں کسی بھی قسم کے احساس سے عاری تھیں‘ وہ خود پر بیت رہی کیفیات کو چھپا نہیں رہی تھیں۔ انہوں نے کہا:’’ میرا دل مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہے۔‘‘
بیگم زبانی ایک گھریلو خاتون ہیں۔ وہ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھتی ہیں لیکن ان دنوں بنوں میں ر ہتی ہیں جہاں وہ اور ان کا خاندان 15جون 2014ء کو شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن کے بعدہجرت کرکے آبسا ہے۔
زبانی بیگم کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں جہاز، ڈرون اور جنگی طیارے مستقل طور پر گفتگو کا حصہ رہے۔ وہ جب بھی ہیلی کاپٹر یا کسی جنگی طیارے کے چنگاڑنے کی آواز سنتیں تو چھپ جاتیں اور اپنے بچوں پر بھی چلاتیں کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔
’’ میں آگاہ ہوں کہ بنوں محفوظ ہے لیکن اس کے باوجود۔۔۔‘‘ ان کے الفاظ ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے‘ کیوں کہ وہ حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ انہوں نے کہا:’’ جب جنگی طیارے فضا میں نظر آتے ہیں تو میں اور میرے بچے خود کو چھپانے کی جستجو کرتے ہیں۔‘‘
بنوں میں کوئی طیارہ پرواز کرتا نظر نہیں آتا اور خاص طور پرکوئی ایسا جنگی طیارہ تو قطعی طور پر نہیں جو شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں پر حملے کرتے ہیں۔
زبانی بیگم کی کہانی شمالی وزیرستان کی بہت سی عورتوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق خطے میں 9/11کے بعد سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث پانچ لاکھ سے زائد خواتین نفسیاتی عوارض کا شکار ہوئی ہیں۔
بنوں کے ایک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر جاوید اختر کہتے ہیں:’’ قبائلی علاقوں میں خواتین چار دیواری میں محصور رہتی ہیں اور اپنے تحفظ اور روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی کے لیے مردوں پر انحصار کرتی ہیں۔ وہ گھروں میں مقید رہتی ہے اور مشکل حالات و مستقل خوف کا تنہا ہی سامنا کرتی ہیں۔ قبائلی ثقافت چوں کہ ان کو اظہار اور اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی جس کے باعث ان پر نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو بالآخر نفسیاتی عارضوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان کے 80فی صد مریضوں کی تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔
ڈاکٹر جاوید اختر شمالی وزیرستان سے متصل اس شہر میں واحد ماہرِ نفسیات ہیں جو نقل مکانی کرنے والے تقریباً 10لاکھ افراد کے لیے اولین پیڑاؤ ہے۔ وہ گزشتہ 20برسوں سے اس شہر میں پریکٹس کر رہے ہیں۔
نفسیاتی امراض کا شکار افراد کے حوالے سے کوئی سرکاری اعداد و و شمار موجود نہ ہونے کے باعث ماہرینِ نفسیات اور عمومی معالجین کے نجی کلینکوں کاباقاعدگی سے رُخ کرنے والے نفسیاتی عارضوں کا شکار مریضوں کی بنا پر ہی ان کی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
ڈاکٹر جاوید اخترنے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’صرف خواتین ہی نہیں بلکہ نوجوان بھی خطے میں جاری شورش سے متاثر ہور ہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ نفسیاتی عارضے اس وقت تیزی سے پھیلنا شروع ہوئے جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا اورخطے میں پہلی بار بنیادپرستی کو فروغ حاصل ہوالیکن مقامی آبادی 9/11کے بعد شروع ہونے والی شورش کے بعد تشویش ناک حد تک نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوئی ۔
ڈاکٹر جاوید اخترنے کہا: ’’قبائلی علاقوں کے باسی قبل ازیں باہمی لڑائی جھگڑوں، کلاشنکوف کلچر، بے روزگاری اور منشیات سے متاثر ہوئے اور اب وہ ٹارگٹ کلنگ، ڈرون حملوں، جنگی طیاروں کے ذریعے ہونے والی بمباری اور شیلنگ کے اثرات قبول کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ خطے میں جاری شورش کے باعث لوگ ذہنی تناؤ، تشویش، بے خوابی، عدم تحفظ کے احساس اور خللِ دماغی کا شکار ہوئے ہیں۔ 
ڈاکٹر جاوید اختر نے کہا:’’ ذہنی تناؤ اگر طویل عرصہ تک قائم رہے تو یہ اگلی نسلوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ ذہنی عوارض اچانک حملہ آور نہیں ہوتے بلکہ یہ آہستہ آہستہ متاثر کرتے ہیں اور ان کے تباہ کن اثرات طویل عرصہ تک قائم رہتے ہیں۔‘‘
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 43برس کے نورجہاں ڈاکٹر جاوید اختر کے ایک مریض ہیں۔ وہ جب سے بنوں شہر آئے ہیں‘ مختلف نفسیاتی عوارض کی شکایت کرتے ہیں ‘ ان کی تمام شکایتوں کا تعلق قبائلی علاقوں میں مستقل طور پر جاری عسکریت پسندی، فوجی آپریشنوں اور نقل مکانی سے ہے۔ 
نور جہاں ماضی میں ایک چھوٹا سا ریستوراں چلاتے تھے اور شام کے وقت فٹ بال کھیلا کرتے تھے۔ وہ اب زیادہ تر وقت لاپرواہی سے بیٹھے رہتے ہیں اور مایوسی کے گہرے سایے ان پر حاوی آچکے ہیں‘ ان کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے دیکھے جاسکتے ہیں۔ وہ جب بھی بات کرتے ہیں‘ان کی گفتگو کا موضوع صرف زندگی کے تاریک پہلوہی ہوتے ہیں۔ 
نور جہاں نے کہا:’’ میں اپنے خاندان پر صرف ایک بوجھ ہوں۔ میرا نہیں خیال کہ جب وہ وزیرستان واپس جائیں گے تو میں ان کے ساتھ گھر واپس لوٹ سکوں گا۔‘‘
جب ان سے پیار کے ساتھ بارہا استفسار کیا کہ ان کو کیا چیز پریشان کر رہی ہے تو انہوں نے کہا: ’’ میں ان لمحات کو فراموش نہیں کرسکتا جب جنگی طیاروں نے میرے گاؤں پر حملہ کیا۔ اس وقت میں اور میرا بیٹا کفایت اللہ گاؤں کے بازار سے خریداری کرنے میں مصروف تھے۔ جب میں آگے بڑھا تو میں نے دیکھا کہ کفایت حملے کی زد پر آچکا تھااور اس کے اعضا زمین پر بکھرے پڑے تھے۔ وہ صرف 10برس کا تھا۔‘‘
وہ کہتے ہیں:’’ اللہ تبارک تعالیٰ نے مجھے یہ صدمہ سہنے کی ہمت عطا کی لیکن میں مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہوں۔‘‘ انہوں نے اپنی آنکھوں میں امڈ آنے والے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا:’’ میں اب کس طرح جی سکتا ہوں۔‘‘
ڈاکٹر جاوید اختر نے کہا کہ ہزاروں نوجوان اپنی پریشانیوں کو ختم کرنے کے لیے منشیات کا استعمال کر رہے ہیں کیوں کہ یہ آسانی کے ساتھ دستیاب ہیں۔ 
انہوں نے کہا:’’ نوجوانوں میں منشیات اور خواتین میں خواب آور ادویات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے کیوں کہ قبائلی علاقوں میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران لوگوں کی کھل کر زندگی جینے میں دلچسپی کم ہوئی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکومت کو طبی معالجین کی تربیت کرنا ہوگی تاکہ وہ نفسیاتی عوارض کا علاج کرنے کے قابل ہو پائیں۔ ان کا کہنا تھا:’’ نفسیاتی عوارض سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کی تربیت کے لیے ورکشاپوں کا انعقاد کیا جاسکتا ہے۔ اگراس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا تو اس کے قبائلی معاشرے کی بقاء پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here