لاہور ( وقار گیلانی سے) چھ برس کی ایمان شہزاد کی موت کے بعد ان کے والد نے سرکاری حکام اور پلازہ کی انتظامیہ پر حفاظتی انتظامات نہ کرنے کا الزام عاید کیا ۔ گزشتہ ماہ جنوری میں ایمان لاہور کے ایک مصروف شاپنگ مال کی تیسری منزل سے گِر گئی تھی۔
کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) سے حاصل کی گئی اس کی موت کی فوٹیج مقامی ٹی وی چینلوں پر بارہا نشر کی گئی جس میں یہ دکھایا گیا کہ بچی ایکسلریٹر سے نیچے جانے کی کوشش کرر ہی تھی کہ قریب ہی کھلی چھوڑی گئی جگہ سے نیچے گِر گئی۔فوٹیج میں یہ بھی دکھایا گیا کہ بچی عمارت کے گراؤنڈ فلور پر آکر گِری اور کچھ لوگ اس کو بچانے کے لیے آگے بڑھے۔
فوٹیج کے مطابق ایمان اپنے چچا کے ساتھ محمود علی قصور ی روڈ پر قائم ژنحوا مال آئی ہوئی تھی۔ تیسرے فلور پر وہ جنگلے کے قریب آئی اور اچانک نیچے گِر گئی۔اس ناگہانی حادثے کا شکار ہونے والی بچی کے والد شہزاد سلیم نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ کاروباری پلازے تعمیر کرتے ہوئے عوامی تحفظ کے پہلو کو نظرانداز کیاجانا شہر کی ترقی کے ذمہ دار اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔‘‘
ایمان دو جنوری کو چھت سے گِری تھی‘ بعدازاں وہ مقامی ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی۔ کچھ لوگوں نے فیس بک پر اس بارے میں صفحات بھی بنائے اور حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ غفلت کے مرتکب ہونے والے افراد کے خلاف کارروائی کرے۔ صفحے کا عنوان’’ایمان آوور ہوپ‘‘ ہے جس میں ناگہانی حادثے کا شکار ہونے والی بچی کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ایمان کے والد نے کہا کہ یہ حیران کن ہے کہ عمارت کی ایک زیرِتعمیر منزل کو عوام کے لیے کھول دیا گیا اور سرکاری حکام نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ اس مقام پر ، جہاں سے ان کی بچی گِری، خبردار کرنے کے لیے کوئی بورڈ زنہیں لگائے گئے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پلازہ کی انتظامیہ نے کوئی دوسرے حفاظتی انتظامات بھی نہیں کیے تھے جیسا کہ خاردارتاریں لگائی جاتیں یا اس راستے کوعوام کے لیے بند کر دیا جاتا۔
دوسری جانب لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے ایک سینئر افسر ، یہ ادارہ شہر میں تمام رہائشی اور کاروباری عمارتوں کے ڈیزائن اور تعمیرات کی منظوری دینے کا مجاذ ہے، نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بچی کی موت کو ’’قطعی طور پر حادثاتی‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا:’’ یہ کسی بھی شاپنگ مال میں اپنی طرز کا پہلا واقعہ تھا جس کے باعث حکام کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ عمارتوں کے لیے تجویز کی گئی حفاظتی تدابیر میں بنیادی طور پر آگ بجھانے والے آلات کی تنصیب اور آتشزدگی کی صورت میں عمارت سے باہر نکلنے کے محفوظ راستوں کی تعمیر ہیں۔ پلازہ کی انتظامیہ نے ایمان کے والدین پرغیر ذمہ داری کا الزام عاید کیا۔
سابق بیوروکریٹ اور عوام کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی تنظیم سوک فورم کے چیئرمین عنایت اللہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اس نوعیت کے واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح سے کثیر المنزلہ کاروباری مراکز کی تعمیر میں اکثر و بیش تر حفاظی تدابیر اختیار نہیں کی جاتیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ شاپنگ مالز کی تعمیر کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ان کا رُخ کریں اور ان کومسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ’’یہ متعلقہ محکموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کا تحفظ کو یقینی بنائیں۔‘‘
ڈایکٹر جنرل ریسکیو1122ڈاکٹر رضوان نصیرنے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ماضی میں پلازوں میں حفاظتی اقدامات نہ کیے جانے کے باعث آتشزدگی کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔29دسمبر 2014ء کو لاہور کے مصروف ترین بازار انارکلی میں ایک پلازہ میں آتشزدگی کے باعث 13افراد سانس گھنٹے سے جاں بحق ہوگئے تھے کیوں کہ عمارت کا مرکزی داخلی راستہ آگ کی لپیٹ میں آگیا تھا اور باہر نکلنے کا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔‘‘ ریسکیو 1122پنجاب حکومت کاہنگامی امداد فراہم کرنے کا سرکاری ادارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمارتی قوانین کے درست طور پر نافذ نہ کیے جانے اور نگرانی نہ ہونے کے باعث ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی اپنی رپورٹوں کے مطابق شہر میں کاروباری عمارتوں کی ایک بڑی تعداد ان قوانین پر عمل نہیں کررہی۔ ستمبر 2012ء میں25کارکن اس وقت جاں بحق ہوگئے تھے جب لاہور کے ایک گنجان آباد علاقہ میں قائم جوتے بنانے والی فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔