میڈیا کوریج‘ دہشت گردی کے متاثرین کے علاج کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ

0
4680

Victims of the attack, at the Lady Redding Hospital, Peshawar Ghulam Dastageer

پشاور (غلام دستگیر سے) بہت سے لوگ 2007ء کو ایک ایسے برس کے طور پر یاد رکھتے ہوں گے جب پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی ایک کارروائی میں بے نظیر بھٹو شہید ہوگئیں، اسی برس ایک اور دہشت گرد حملہ ہواتھا جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے ڈاکٹر شمس سلیمان کی یادوں سے محو نہیں ہوسکا۔ 
ڈاکٹر سلیمان اس وقت جنرل آئی سی یو میں ڈیوٹی پر تھے جب ضلع چارسدہ کے گاؤں شیرپاؤ میں عید کے اجتماع پر ہونے والے خودکش حملہ کے متاثرین کو ہسپتال لایا گیا۔ اس خودکش حملے کا نشانہ اس وقت کے وزیرِداخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ تھے جو بال بال بچ سکے۔ 
اس خود کش حملے میں 50افراد جان کی بازی ہار گئے جب کہ 96زخمی ہوئے۔ 
جب حملے کے زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاورلایا گیا توہر طرف افراتفری پھیل گئی جو صوبہ خیبرپختونخوا کا سب سے بڑا ہسپتال ہے’ اس بارے میں ڈاکٹر شمس کو اس المناک حادثے کے بعد سے ہی اندازہ تھا کہ ایسی صورتِ حال پیدا ہوگی۔ تاہم21دسمبر 2007ء کو میڈیا کے نمائندوں کی ہسپتال میں ’’ غیرضروری‘‘ موجودگی طبی عملے کے لیے مشکلات کا باعث بنتی رہی جو زخمیوں کو طبی امداد فراہم کر رہے تھے ‘ ان زخمیوں کی زندگیوں کا انحصار طبی عملے پر تھا۔ 
ڈاکٹر شمس کہتے ہیں:’’ اگر اس صورتِ حال کا مختصر ترین الفاظ میں اظہارکیا جائے تو یہ غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا۔ اس وقت جب مریضوں کی حالت انتہائی نازک تھی اور ان کو ڈاکٹروں کی مکمل توجہ کی ضرورت تھی‘ میڈیا کے نمائندوں نے زخمیوں کی ویڈیوز اور تصویریں بنا کر طبی عملے کی توجہ دوسری جانب مبذول کروانا شروع کردی اور حتیٰ کہ یہ سب کچھ مریضوں و ڈاکٹروں کی مرضی کے بغیر کیا گیا۔ 
انہوں نے کہا کہ یہ میڈیا کے نمائندوں کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے مترادف تھا۔ انہوں نے مزید کہا:’’تمام ہسپتالوں کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ہنگامی حالات کے دوران میڈیا کے نمائندوں کی ہسپتالوں تک رسائی کو محدود کریں۔ وہ اپنی ضرورت کے مطابق کسی بھی قسم کی معلومات کے حصول کے لیے ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے تعینات کیے گئے فوکل پرسن سے رابطہ قائم کریں۔‘‘
میڈیا پر حالیہ برسوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات کی غیر ذمہ دارانہ کوریج کے باعث تنقید کی جاتی رہی ہے۔ جب کبھی ملک میں کوئی فطری یاغیر فطری تباہی آتی ہے تو ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر نامناسب تصاویر کا غلبہ ہوجاتا ہے جب کہ اکثر اوقات بم دھماکے کے مناظر براہِ راست سکرین پر نشر کیے جا رہے ہوتے ہیں۔ 
ہسپتال کے انتظامی سربراہ شریف احمد خان کہتے ہیں کہ 16دسمبر 2014ء کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں لائے گئے آرمی پبلک سکول حملے کے زخمی بچوں کی میڈیا کوریج غیر اخلاقی رپورٹنگ کی کلاسیکی مثال ہے۔ 
شریف احمد خان نے یاد کرتے ہوئے کہا:’’ 16دسمبر کے منحوس دن ہم ایک جانب جہاں دہشت گردی کے متاثرین کو طبی امداد فراہم کرنے کی انتہائی مشکل ذمہ داری انجام دے رہے تھے تو دوسری جانب کیمرہ مین، فوٹوگرافرز اور رپورٹرزکی وجہ سے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ میڈیا کے نمائندوں نے ان ڈاکٹروں کے انٹرویو کرنے کی کوشش بھی کی جوشدید ترین زخمی متاثرین کو امداد فراہم کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا:’’اکثر اوقات ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے ہسپتال کے ٹراما ہال میں زخمیوں کی فوٹیج بنانے کے لیے ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کو ایک جانب ہٹانے سے گریزتک نہیں کیا۔‘‘
ہسپتال کے عملہ کے مطابق ملاقاتیوں کے ہاتھوں اور گلے میں جراثیم موجود تھے جومتاثرین کے کھلے زخموں سے ان کے جسم میں داخل ہوسکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ٹراما ہال میں ہجوم کی وجہ سے مریضوں کی حالت مزید بگڑ نے کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔
ان مسائل سے قطأ نظر جو میڈیا کے نمائندے ہسپتال کی انتظامیہ کے لیے پیدا کرتے ہیں‘ براہِ راست کوریج کی وجہ سے ٹی وی سکرینوں پر خون آلود لاشے دیکھنے والوں پر گہرے نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے قانون دان عنایت الرحمان کہتے ہیں:’’ یہ کسی ڈراؤنی فلم کی طرح ہے لیکن فرق صرف یہ ہے کہ یہ حقیقت پہ مبنی ہوتی ہے جس کے لوگوں اور خاص طور پر بچوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘‘
شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی پشاور کی سابق وائس چانسلر اور سینئر کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر سیدہ فرحانہ جہانگیر‘ عنایت الرحمان کے مؤقف سے متفق ہیں‘ وہ کہتی ہیں:’’ لوگ سکول پر ہونے والی دہشت گردی کے حملے کے تین ہفتوں تک گھروں سے باہر نہیں نکلے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بچوں نے دل دہلا دینے والے فوٹیج دیکھے جس کے ان کے ذہنوں پر طویل المدتی نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے۔
ڈاکٹر فرحانہ جہانگیر کہتی ہیں کہ اس طرح کے فوٹیج اور فوٹوگراف دکھانے سے بچوں میں تشویش، ذہنی دباؤ اور احساسِ عدم تحفظ پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا:’’ یہ صدمے کے باعث پیدا ہونے والا ذہنی دباؤ تھا‘ کسی صدمے کی وجہ سے دماغ پر مرتب ہونے والے اثرات مستقل نوعیت کے ہوتے ہیں۔‘‘
کیپیٹل ٹی وی کے نیوز ڈائریکٹر ناصر ملک کہتے ہیں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹیلی ویژن تصویروں کے بغیر نامکمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹی وی چینلوں کی انتظامیہ مقامی رپورٹروں کو ہسپتالوں میں دہشت گردی کے کسی وقوعہ کی کوریج کی ہدایت کرتی ہے لیکن وہ رپورٹروں پر یہ دباؤ نہیں ڈالتے کہ وہ زخمیوں سے انٹرویو کریں۔
انہوں نے کہا:’’اس بارے میں تصورکرنا بھی باعثِ تکلیف ہے کیوں کہ ایسا کرنا مزید صدمے کا باعث بنتا ہے۔‘‘
اس نوعیت کے واقعات کی کوریج کے لیے میڈیا کے نمائندوں کے حوالے سے ضابطۂ اخلاق کی تشکیل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: جی بالکل! میں اس مؤقف سے متفق ہوں کہ تمام ٹی وی چینل اور ان کا سینئر سٹاف، جن میں ڈائریکٹر نیوز و کنٹرولر نیوز شامل ہیں، کو (ایسے مقامات کی کوریج )اس حوالے سے واضح پالیسی تشکیل دینی چاہیے ۔‘‘
ناصر ملک یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس نوعیت کا ضابطۂ اخلاق ہنگامی نوعیت کے حالات کے دوران ہسپتالوں پر میڈیا کی یلغار روکنے میں مددگار ثابت ہوگا کیوں کہ یہ تمام اخبارات و ٹی وی چینلوں کی مشترکہ ذمہ داری بن جائے گی کہ ان کے رپورٹرز ہسپتالوں اورایسے دوسرے مقامات پر بھیڑ نہ لگائیں۔
انہوں نے کہا:’’ اس سے بریکنگ نیوز چلانے کی دوڑبھی ختم ہوگی ‘جس کے باعث میڈیا کے نمائندے زخمیوں کے لیے پریشانی کا سبب نہیں بنیں گے۔‘‘
عنایت الرحمان کے لیے ہسپتال کے بستر پر پڑے کسی شخص کی ٹی وی فوٹیج بنانا اس کی نجی زندگی میں مداخلتِ بے جا کے مترادف ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل 14کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا:’’ میرا خیال ہے کہ ہمارا میڈیا ناظرین کو لرزہ خیز واقعات کے فوٹیج دکھا کر ان کے لیے ذہنی تشدد کا باعث بن رہا ہے۔ ان کو صرف حقائق و اعداد و شمار تک محدود رہنا چاہیے۔‘‘
پشاور سے تعلق رکھنے والے فوٹوجرنلسٹ عبدالمجید گورایہ نہ صرف ہسپتالوں بلکہ مختلف مقامات پر ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کی کوریج بھی کرچکے ہیں‘ وہ ٹراما ہالوں اور ہسپتالوں کے وارڈز میں صحافیوں کی موجودگی کی حمایت نہیں کرتے جہاں پر مریضوں کا علاج ہورہا ہو۔
انہوں نے کہا:’’ زخمیوں کو بروقت طبی امداد فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم اپنے بھاری بھرکم آلات کے ساتھ گدھوں کی طرح ہسپتالوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔‘‘
ناصر ملک کی طرح انہوں نے بھی مشترکہ حکمتِ عملی تشکیل دینے کی تجویز دی تاکہ بریکنگ نیوز اور نیوز وائر کے لیے سب سے پہلے تصاویر بنانے کی دوڑ کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ عبدالمجید گورایہ نے کہا:’’ میں ذاتی طور پر کوریج کے لیے ہسپتالوں میں نہیں جانا چاہتا کیوں کہ ہسپتالوں میں ہم لوگوں کی زندگیوں کی قیمت پر تصاویر اتارتے ہیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here