لاہور (شہریار ورائچ سے) سانحہ پشاور کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومت سکولوں و کالجوں کی سکیورٹی کے حوالے سے اقدامات کرچکی ہے۔ اس حوالے سے پنجاب حکومت نے سکولوں میں سکاؤٹنگ اور کالجوں میں نیشنل کیڈٹ کور (این سی سی) کی تربیتی سرگرمیوں کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
این سی سی فوجی ورزش کی طرز کی ایک سرگرمی ہے جس میں کالجوں ا ور یونیورسٹیوں کے طالب علم ہنگامی امدادفراہم کرنے کی تربیت حاصل کریں گے۔ اس تربیت کے تحت ان میں ہلکے ہتھیار استعمال کرنے اور ہنگامی صورتِ حال جیسا کہ جنگی حالات سے نپٹنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اس تربیت کا سلسلہ 2002ء تک جاری رہا جب جنرل مشرف نے اسے ختم کردیا۔
سابق وزیرِ تعلیم پنجاب میاں عمران مسعود نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا: ’‘’ 1986ء کے قومی دفاعی خدمت کے قانون کے تحت یہ تربیت طلباء و طالبات دونوں کے لیے لازمی قرار دی گئی ہے۔ پاکستان اور اسرائل ہی وہ دو ممالک ہیں جہاں پر یہ تربیت حاصل کرنا خواتین کے لیے بھی ضروری قرار دیا گیاہے۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ تربیت فراہم کرنے کا بنیادی مقصد فوج کی مدد کے لیے دفاعی حصار تشکیل دینا ہے۔ طالب علموں کو اکثر اوقات شہری دفاع کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ 40روز کے اس تربیتی کورس میں بھاری اسلحہ استعمال کرنے کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی جاتیں۔
حکومتِ پنجاب یہ اعلان کرچکی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر نوجوانوں کو بہرطور پر ملک کے موجود ہ حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہونا ہوگا۔ پنجاب کے وزیرِ تعلیم رانا مشہودخان نے کہا:’’ شہری فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاون ثابت ہوسکتی ہے اور اس سے نوجوانوں کاتربیت یافتہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔‘‘
نجی شعبہ بھی سکولوں و کالجوں میں این سی سی و سکاؤٹنگ کی تربیت فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ پراگریسو پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کے صدر مزمل اقبال صدیقی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا: ’’ اگر حکومت نجی شعبے کو نظرانداز کرتی ہے تو ایک کروڑ سے زائد طالب علم یہ تربیت حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں گے۔‘‘ان کا یہ خیال تھا کہ اگرچہ نجی شعبہ کے پاس یہ تربیت فراہم کرنے کے حوالے سے سہولیات کافی نہیں ہیں لیکن اس حوالے سے کم از کم پالیسی ضرور تشکیل دی جانی چاہیے۔
حکومت اس وقت سکولوں و کالجوں کے لیے ضابطہ تشکیل دینے کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔ رانا مشہود نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ہم شہری دفاع کی تربیت، ابتدائی طبی امداد، ہنگامی صورتِ حال سے نپٹنے کی اور بدترین حالات میں ہلکے ہتھیار استعمال کرنے کی تربیت کی فراہمی کو لازمی اقدامات کے طورپر لاگو کرنے کے بارے میں غور کررہے ہیں۔‘‘انہوں نے کہا:’’ اس مقصد کے لیے سات سو سے زائد کالجوں اور اگرہم اس میں نجی شعبے کے تعلیمی اداروں کو بھی شامل کرتے ہیں تواس کے لیے بڑے پیمانے پر معاشی وسائل کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ سہولیات صرف تین ہزار کالجوں میں فراہم کریں گے۔‘‘
محکمۂ ہائر ایجوکیشن کے سپیشل سیکرٹری نیئر اقبال نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ این سی سی کے ساتھ ساتھ حکومت سرکاری و نجی سکولوں میں سکاؤٹنگ کورسز ازسرِ نو شروع کرنے کے بارے میں غور کررہی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا:’’ یہ بہ ظاہر مشکل دکھائی دیتا ہے کیوں کہ نجی شعبہ میں 86ہزار سے زائد سکول قائم ہیں جس کے باعث یہ تربیت فراہم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل کی ضرورت ہے۔‘‘
پنجاب ٹیچرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری کاشف شہزاد چودھری نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے والدین اس منصوبے سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ دہشت گردی سے نپٹنے کا ایک غیر سنجیدہ حل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ والدین خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’ یہ والدین کے لیے فطری ہے کیوں کہ ہم این سی سی تربیت کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے سے جوڑ رہے ہیں۔ لیکن کالجوں کی انتظامیہ والدین کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔‘‘
پنجاب حکومت ان طالب علموں کو 20اضافی نمبر دینے کے بارے میں غور کر رہی ہے جو این سی سی تربیت کا حصہ بنیں گے۔ یہ نمبرزگریجویشن میں ان کے داخلے میں مددگار ہوں گے۔ ماضی میں بھی یہ عمل اسی طرح جاری رہا ہے۔
وزارتِ قانون کی ہدایت پر پولیس افسروں نے طالب علموں کو ہنگامی صورتِ حال سے نپٹنے کے لیے لیکچر دینا شروع کر دیے ہیں۔ ایس پی سٹی اسد سرفراز خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سینئر پولیس افسر مختلف کالجوں و یونیورسٹیوں میں سکیورٹی اقدامات کرنے کے حوالے سے لیکچر دینے کے لیے جارہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’کالج و یونیورسٹی انتظامیہ کو کہا جارہا ہے کہ وہ ابتدائی طبی امداد اور ہنگامی حالات سے نپٹنے کی تربیت فراہم کرنے کے لیے کورس شروع کرے۔ محکمۂ شہری دفاع و ریسکیو (1122) کو یہ ہدایت کی جاچکی ہے کہ وہ ان کورسز کو شروع کرنے میں انتظامیہ کی مدد کریں۔‘‘