افغان مہاجرین کی واپسی ‘ توقعات و خدشات

0
5056

کوئٹہ ( مالک اچکزئی سے) سرخاب مہاجرکیمپ جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یہاں پر افغان مہاجرین کی چہل پہل تھی جو اسّی کی دہائی میں افغانستان پر روسی حملے کے بعد پاکستان آئے تھے۔
بعدازاں نّوے کی دہائی میں افغانستان میں طالبانائزیشن کے بعد مزید مہاجرین نے اس کیمپ کا رُخ کیا۔ 11ستمبر 2001ء میں امریکہ کی افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف جنگ کے باعث مہاجرین کی بڑی تعداد ایک بار پھر اس کیمپ میں آباد ہوئی۔
یہ کیمپ، جہاں پر افغان مہاجرین کی کئی نسلیں آباد رہ چکی ہیں ،اب بڑی حد تک خالی ہے، جب ہوا گرد آلود گلیوں اور مٹی کے گھروں کو چھوتی ہوئی گزرتی ہے تواس ویرانی میں گونج سی پیدا ہوتی ہے۔
مٹی کی اینٹیں بنانے والے48برس کے سرور جان کو ان کے بچوں نے گھیر رکھا ہے۔ جب وہ اینٹوں کے سانچوں کو مٹی سے بھرتے ہیں تو ان کے دو بچے ان کی مدد کرتے ہیں۔
سرور جان ان افغانیوں میں سے ایک ہیں جو اسّی کی دہائی میں سب سے پہلے پاکستان آئے تھے۔ وہ اور ان کا خاندان گزشتہ 30برسوں سے سرخاب میں رہ رہے ہیں۔ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے سرور افغانستان کے صوبہ قندھار کے ضلع ارغنداب سے پاکستان آئے تھے جب وہ صرف 18برس کے تھے۔
وہ کہتے ہیں:’’ میں فی اینٹ ایک روپے میں فروخت کرتا ہوں اور اس مٹی کے ڈھیر سے روزانہ تقریباً پانچ سو اینٹیں بناسکتا ہوں۔‘‘
سرور مٹی کی اینٹیں بیچ کر اپنے خاندان کے نو افراد کی کفالت کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ مشقت ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن وہ پریشان ہیں کہ پاکستان کی حکومت ان کو اور دیگر افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھیج دے گی۔
پاکستان کی افغان مہاجرین کے حوالے سے پالیسی 2001ء کے بعد سے سخت ہوئی ہے جب افغانوں کو مہاجرین کیمپوں سے اس خوف کے باعث نکال دیا گیا تھا کہ ان میں دہشت گرد پناہ حاصل کرسکتے ہیں۔
دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے قتلِ عام میں 140بچے شہید ہوگئے تھے جس کے باعث حکام کی جانب سے ایک بار پھر مہاجرین کو کیمپوں سے افغانستان واپس بھیجنے کا عزمِ ظاہر کیا گیا۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)نے قبول کی۔ بعدازاں ٹی ٹی پی کے سربراہ ، جنہوں نے افغانستان کے سرحدی علاقے میں پناہ لے رکھی ہے،نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ٹی ٹی پی طالبان کی گرفتاریوں اور ان کی جعلی مقابلوں میں ہلاکت کے ردِعمل میں پاکستان کے تذویراتی مقامات پر حملے جاری رکھے گی۔
بلوچستان کے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ رجسٹرنہ ہونے والے افغان مہاجرین کے حوالے سے کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جسے حل کرنا ضروری ہے۔ ہم اسے (افغان مہاجرین کے معاملے کو) کابینہ کے اجلاس میں اٹھائیں گے تاکہ مہاجرین کی افغانستان جلد از جلد واپسی کے لیے منصوبہ تشکیل دیاجاسکے۔‘‘
تاہم سرور جان واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنے ملک میں امن وامان کی صورتِ حال سے پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ میں افغانستان میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رابطے میں ہوں۔ وہ ہمیشہ امن و امان کی خراب صورتِ حال کی شکایت کرتے ہیں۔‘‘
سرور جان کہتے ہیں کہ ان کی داڑھی کے باعث مسائل پیدا ہوئے ہیں کیوں کہ اس کے باعث وہ طالبان دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کاطالبان یا کسی بھی عسکریت پسند گروہ سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔
16دسمبر کوہونے والے پشاور حملے کے کچھ روز بعد ہی پاکستان کے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردوں نے افغان مہاجرین کار وپ دھار رکھا ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ پاکستان کی خودمختاری ہماری ترجیح ہے‘ غیر رجسٹرڈ مہاجرین کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘‘
سرفراز بگٹی نے کہا کہ گزشتہ 12برسوں سے تقریباً دو لاکھ افغان دارالحکومت اسلام آباد کے نواح میں کچی آبادیوں میں رہ رہے ہیں اور وہ رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہا:’’ صوبوں کو یہ ہدایت کی جاچکی ہے کہ وہ چند اقدامات کریں جیساکہ افغان مہاجرین کی تلاشی لی جائے اور یہ تسلی کی جائے کہ وہ رجسٹرڈ ہیں یا نہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رہنا چاہیے جیسا کہ عالمی برادری اقوامِ متحدہ کے مہاجرین کے ادارے یواین ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی امداد نہیں کررہی تاکہ وہ مہاجرین کو معاونت فراہم کرسکے جس کے باعث وہ ملازمتوں کی تلاش میں ملک بھر میں پھیل چکے ہیں۔ سرفرار بگٹی نے کہا:’’ صرف اسلام آباد سے پانچ سو غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو حراست میں لیا گیا ہے۔‘‘
افغانستان کے ضلع فریاب سے تعلق رکھنے والے 75سالہ ولی محمد نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن کے دوران ان کے 18سالہ بیٹے لال محمد کو گرفتار کرلیا ہے۔ ولی محمد کوئٹہ کے شالکوٹ پولیس سٹیشن کے باہر بیٹھے انتظار کر رہے تھے جہاں پر ان کے بیٹے کو حوالات میں رکھا گیا ہے‘ انہوں نے کہا:’’ جب اس نے سکیورٹی فورسز کے لیے گھر کا دروازہ کھولا تو وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ میرے بیٹے کے پاس افغان مہاجرین کے لیے لازمی قرار دیا گیا رجسٹریشن کارڈ نہیں ہے۔‘‘
ولی محمد نے کہا:’’ میرا بیٹا لال محمد سبزی و پھل منڈی میں مزدوری کرتا ہے۔ وہ ہیپاٹائٹس بی کا مریض ہے اور گزشتہ 22گھنٹوں سے پولیس کی حراست میں ہے۔اس سے ملاقات تک کی اجازت نہیں دی گئی۔‘‘
سرچ آپریشن کرنے والے پولیس کے ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز لینز کو بتایا کہ کوئٹہ کے علاقوں زہری ٹاؤن اور باڑیچ ٹاؤن سے تقریباً سات سو افغانوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ یہ کارروائی نیم فوجی ادارے فرنٹیئر کور، انسدادِ دہشت گردی فورس (اے ٹی سی) اور پولیس نے مشترکہ طور پر کی۔
پولیس ذریعے نے کہا:’’بیش تر افغان مہاجرین کو اس تصدیق کے بعد رہا کر دیا گیا ہے کہ وہ رجسٹرڈ ہیں۔‘‘
گزشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے پاکستان تقریباً 40لاکھ مہاجرین کی میزبانی کرچکا ہے۔ اس وقت پاکستان میں آباد مہاجرین کی تعداد تقریباً15لاکھ ہے جب کہ 2002ء کے بعد سے38لاکھ افغان مہاجرین یو این ایچ سی آر کے وطن واپسی کے رضاکارانہ پروگرام کے تحت افغانستان واپس لوٹ چکے ہیں‘ یہ دنیا میں مہاجرین کی بحالی کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔
یو این ایچ سی آر سے منسلک قیصر خان آفریدی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ تقریباً37فی صد رجسٹرڈ افغان مہاجرین مخصوص دیہاتوں جب کہ 63فی صد دیگر علاقوں میں رہتے ہیں۔ افغانستان میں تبدیلی کے عمل (صدارتی انتخابات اور عالمی فوجی دستوں کے انخلا) اور مسلح تصاوم و انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث اندرونِ ملک ہونے والی مستقل نقل مکانی کی وجہ سے 2014 ء میں وطن واپس لوٹنے والے مہاجرین کی تعداد کم ہوگئی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ انفراسٹرکچر نہ ہونے کے باعث افغانستان میں مہاجرین کی بحالی کے حوالے سے مشکلات پیش آرہی ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں اس وقت آباد ہر چار میں سے ایک افغان اس سے قبل بے گھر رہ چکا ہے اور اسے ازسرِنو بحالی کی ضرورت ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی نائب صدر اور سابق قانون ساز بشریٰ گوہر نے کہا:’’ حکومت پشاور میں ہونے والے قتلِ عام کی ذمہ داری دوسروں پر عاید کرکے خود کو بری الذمہ کرنے اور انٹیلی جنس و سکیورٹی کے باب میں ہونے والی سنجیدہ نوعیت کی ناکامی سے توجہ ہٹانے کی کوشش کررہی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ طالبان اور ان کے حامیوں کے خلاف پالیسی میں واضح اور عملی تبدیلی کے ساتھ کارروائی ہونی چاہیے تھی‘ حکومت نے اسے عمومی طور پر پشتونوں اور خاص طورپر افغان مہاجرین کو ہراساں کرنے کے موقع کے طور پر استعمال کیا ہے جو پہلے ہی ریاست کی غلط پالیسیوں اور طالبان کی کارروائیوں کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔ 
یو این ایچ سی آر کی ترجمان آریان رمری نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ 2012ء کے اوآخر تک افغانستان کے تقریباً26 لاکھ مہاجرین دنیا کے 82ملکوں میں موجود تھے جن میں سے 95فی صد پاکستان اور ایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں‘ ان خطوں کے بعد سب سے زیادہ مہاجرین نے جرمنی کا رُخ کیا جہاں ان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 31ہزار سات سو ہے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ یہ جاننا اہم ہے کہ بہت سے مہاجرین افغانستان واپس جاچکے ہیں۔ گزشتہ 12برسوں کے دوران تقریباً58لاکھ افغان اپنے گھروں کو واپس لوٹے اور یواین ایچ سی آر نے اس حوالے سے 47لاکھ مہاجرین کی مدد کی۔ یہ دنیا میں مہاجرین کی بحالی کا سب سے بڑا منصوبہ ہے اور واپس جانے والے مہاجرین افغانستان کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مہاجرین کی افغانستان واپسی کا براہِ راست تعلق سماجی و معاشی مواقع تک رسائی اور اہم شعبوں جیسا کہ صحت، تعلیم، تربیت، ذرائع آمدنی، اراضی کی تقسیم، پانی اور صفائی کے انتظامات میں بہتری سے ہے۔ انہوں نے کہا:’’ مختصرطور پر یہ کہ درپیش چیلنجوں کی شدت اور پیچیدگی کے باعث ترقیاتی منصوبوں کے لیے دیرپا حمایت اور طویل المدتی وابستگی کی ضرورت ہے جو بحالی کے بنیادی چیلنجوں کے حل میں معاون ثابت ہو۔‘‘
پاکستان سے تعلق رکھنے والی ماہرِ سماجیات اور کتاب “Militaty Inc”کی مصنفہ عائشہ صدیقہ نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغان مہاجرین نے پاکستان و افغانستان کے مابین تاریخی تعلقات کے باعث اس دھرتی کا رُخ کیا۔
انہوں نے کہا:’’ طویل سرحد اور اطراف کے پشتونوں کے تعلقات کے باعث لوگ بہتر مواقع کی تلاش اور خاص طور پر جنگ و تنازعات کے دنوں میں ہجرت کرتے رہے ہیں۔‘‘
عائشہ صدیقہ نے کہا کہ کیمپوں میں رہنے والے مہاجرین وطن واپسی کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہوسکتے ہیں کیوں کہ افغانستان میں جاری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔‘‘ انہوں نے کہا:’’ امریکی فوجوں کے انخلا کی وجہ سے خانہ جنگی کا خوف پیدا ہوا ہے جو لوگوں کی واپسی کی راہ میں حائل ہوا ہے۔وہ (امن وامان کے حالات کے حوالے سے) پراعتماد نہیں ہیں۔‘‘
عائشہ صدیقہ نے کہا:’’ میں افغان طالبان کے (افغان مہاجرین کے ساتھ) رابطوں کے بارے میں پریقین نہیں ہوں لیکن یقیناًکچھ عناصر ہیں جو ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ یہ مت بھولیں کہ طالبان پشتون قبائلی نظام کا حصہ ہیں۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ (افغان) مہاجرین کے حولے سے کوئی باضابطہ پالیسی رکھتی ہے۔ حکومت یہ چاہے گی کہ لوگ واپس چلے جائیں لیکن وہ لوگوں کو واپسی پر مجبور کرنے کی پالیسی کبھی اختیار نہیں کرے گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ افغانستان بڑی حد تک بیرونی امداد پر انحصار کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ بیرونی امداد میں کمی سے مشکلات پیدا ہوں گی اور حتیٰ کہ تشدد کو ہوا ملے گی۔فی الحال یہ دیکھنا پڑے گا کہ افغانستان میں تبدیلی ہونے والے حالات کس حد تک جمہوریت کے استحکام میں مددگار یا اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here