سانحہ پشاور کے بعد خیبرپختونخوا حکومت کا غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاﺅن

0
4679

بنوں (احسان داوڑ سے) صوبہ خیبر پختونخوا کے دوسرے شہروں کی طرح بنوں میں بھی افغان مہاجرین کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری ہے۔ سوموار کے روز ہونے والے آپریشن کے دوران پولیس نے مختلف مقامات جیسا کہ بازاروں، مہاجرین کے کیمپوں اور شہری علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے 50سے زائد افغان مہاجرین کو گرفتار کرلیا۔
افغانستان کی سرحد سے متصل صوبوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کیمپوں، مہاجرین کے مخصوص علاقوں اور شہروں میں 15لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین کا بڑا حصہ آباد ہے
مہاجرین کے خلاف کارروائی کا آغاز خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے سانحہ پشاور کے بعد کیا تھا جب دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پر حملہ کرکے 140طالب علموں کو شہید کر دیا تھا۔
صوبہ بھر میں غیرقانونی و رجسٹرڈ نہ ہونے والے افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔ خیبرپختونخواحکومت کی جانب سے شروع ہونے والے آپریشن کے بعد سے اب تک سینکڑوں افغان مہاجرین جیلوں میں بھیجے جاچکے ہیں۔
بنوں میں گرفتار ہونے والے افغان مہاجرین کو سٹی پولیس سٹیشن کے دو چھوٹے کمروں میں رکھا گیا ہے جہاں پر انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے یا کھڑے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
سٹی پولیس سٹیشن کی جیل میں قید کریم شاہ افغانی نے کہا:’’ ہمارے پاس قانونی دستاویزات موجود ہیں اورکارڈ کی مدت دسمبر 2015ء میں ختم ہوگی لیکن پولیس نے صرف اس لیے گرفتار کیا ہے تاکہ وہ ہم سے زبردستی رقم حاصل کرسکے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ان کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔
کریم شاہ ،جو کہ افغانستان کے صوبہ تخار سے تعلق رکھتے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے جاری کیا گیا اصل پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) موجود ہے ۔
انہوں نے کہا:’’ میَں 2005ء کے بعد سے اپنے کارڈ کی دو مرتبہ تجدید کروا چکا ہوں اور ایک قانونی مہاجر ہوں‘ پاکستان میں پرامن طور پر رہ رہا ہوں اور بنوں شہر میں اپنا کاروبار کر تا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ پولیس کیوں کر مجھے ہراساں کر رہی ہے۔‘‘
ایک افغان مہاجر عبدالحق ، جو کہ بنوں شہر کی معروف چائے کی مارکیٹ میں کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں، نے کہا:’’ میَں 25سال سے اس ملک میں رہ رہا ہوں اور اسے اپنی ہی دھرتی تصورکرتا ہوں لیکن پولیس مجھے وقتاً فوقتاً پریشان کرتی رہتی ہے۔‘‘
سٹی پولیس سٹیشن سے منسلک پولیس افسر گل حمید نے کہا کہ افغان مہاجرین کو خیبرپختونخوا کی حکومت کی ہدایت پر حراست میں لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی شہر میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کی گئی ہے جہاں پر فوجی آپریشن کے بعد پڑوسی قبائلی ایجنسی شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی بڑی تعداد نے پناہ حاصل کی ہے۔
گل حمید نے کہا:’’ ہم ان کو مجسٹریٹ کے روبرو پیش کریں گے اورایسے مہاجرین جن کے پاس قانونی کارڈ موجود ہوں گے‘ ان کو مقامی ضامن کی گواہی پر ضمانت پر رہا کر دیا جائے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایسے تمام افغان مہاجرین جن کے پاس قانون دستاویزات نہیں ہوں گی‘ ان کو متعلقہ حکام کے حوالے کر دیا جائے گا جوان کوافغانستان واپس بھیج دیں گے۔
گل حمید نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ گرفتار ہونے والے کچھ مہاجرین سنجیدہ نوعیت کے جرائم جیسا کہ اغواء برائے تاوان، قتل و غارت، بھتہ خوری، چوری اور منشیات فروشی کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
پولیس کی انٹیلی جنس برانچ کے اہل کار، جنہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغان مہاجرین کو پاکستان کے فارن ایکٹ کی شق 14کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا:’’ ہم ان کو کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دے سکتے کیوں ہم صوبے میں امن و امان کے بدترین حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ہم حکومتی احکامات پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔‘‘
اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے اہل کار احسان اللہ نے کہا کہ اس وقت 40لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں رہ رہے ہیں جن میں سے 25لاکھ خیبرپختونخوا میں رہتے ہیں جب کہ باقی 15لاکھ پاکستان کے مختلف شہروں جیسا کہ کراچی، میانوالی اور اسلام آباد وغیرہ میں رہ رہے ہیں۔
احسان اللہ نے کہا:’’ افغان مہاجرین کوپاکستان، افغانستان اور یواین ایچ سی آرکے درمیان 2005ء میں ہونے والے سہ طرفہ معاہدے کے تحت قانونی پناہ گزیں کا درجہ دیا گیا ہے جس کے تحت ان مہاجرین کے پاس کمپیوٹرائزڈ پی او آر کارڈہوں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ افغان مہاجرین جن کے پاس پی او آر کارڈز ہیں، وہ قانونی شہری تصور ہوں گے لیکن جنہوں نے کارڈ نہیں بنوائے، ان کو غیرقانونی مہاجر تصور کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً 3005خاندان (15200افراد)بنوں اور اس کے نواحی علاقوں میں افغان مہاجرین کے لیے قائم کیے گئے مختلف کیمپوں میں رہتے ہیں۔
احسان اللہ نے کہا:’’ قانونی مہاجرین کو قانونی تعاون فراہم کیا جائے گا اور وہ پی او آر کارڈز کی مدت ختم ہونے تک پاکستان میں رہ سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر وہ افغانستان واپس جانا چاہتے ہیں توان کی وطن واپسی کے پیکیج کے تحت معاونت کی جائے گی۔ غیر قانونی مہاجرین کچھ حاصل نہیں کرپائیں گے۔
افغان مہاجرین بنوں شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں چھوٹے کاروبار یا دیہاڑی دار مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔
بنوں شہر کے ایک دکان دار محمد خان باجوری نے کہا کہ اگر افغان مہاجرین واپس چلے جاتے ہیں تو مقامی آبادی کو لازمی طور پر فائدہ ہوگا کیوں کہ وہ مہاجرین کی جانب سے چھوڑے گئے کاروبار اور ملازمتیں حاصل کرسکیں گے۔
انہوں نے کہا:’’ اس بازار میں صرف 10دکانیں مقامی شہریوں کی ہیں جب کہ باقی مارکیٹ پر افغان مہاجرین کی اجارہ داری ہے۔ اگر وہ واپس چلے جاتے ہیں تو مقامی لوگ ان کی جانب سے چھوڑے گئے کاروبار کرسکیں گے۔‘‘
محمد خان باجوری نے کہا کہ اگر افغان مہاجرین اپنے ملک واپس چلے جاتے ہیں تو دکانوں کا کرایہ خودبخود کم ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا:’’ وہ(افغان) کاروباری مزاج کے حامل ہیں اور مقامی آبادی کی نسبت زیادہ کرایہ ادا کرتے ہیں۔‘‘
سول انظامیہ کے ایک مقامی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغان مہاجرین کو حراست میں لینے کا فیصلہ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت اس کے حق میں نہیں تھی۔
انہوں نے کہا:’’ وفاقی حکومت چوں کہ یواین ایچ سی آرکے ساتھ (سہ طرفہ) معاہدہ کرچکی ہیں جس کے باعث وفاقی اور صوبائی انتظامیہ کے مابین خیبرپختونخوا حکومت کے افغان مہاجرین کے خلاف کارروائی کرنے کے فیصلے کے باعث تلخی پیدا ہوئی ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here