پشاور: سکولوں کی سکیورٹی کے ناقص انتظامات، والدین میں خوف کی لہر دوڑ گئی

0
4767

 Aurangzaib Khan

پشاور (غلام دستگیر سے) سید علی نواز گیلانی یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ سکول انتظامیہ کی طرف سے ان کے بچوں کے لیے سکول اور گھر کے درمیان چلنے والی بس سروس کو مزید استعمال نہ کریں۔
16دسمبر کو پشاور کے ایک آرمی سکول میں ہونے والے دہشت گردی کے ہولناک واقعہ میں 150افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں طالب علموں کی بڑی تعداد شامل تھی جس کے باعث سید علی نواز گیلانی خوف زدہ ہیں کہ بچوں کی بڑی تعداد کو لے کر جانے والی سکول بسیں دہشت گردوں کا آسان ہدف ہیں۔
متفکر سید علی نواز گیلانی نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ایک باپ کی حیثیت سے میَں پریشان ہوں۔ میَں سوچ رہا ہوں کہ بچوں کو اپنی کار میں سکول چھوڑ کر آیا کروں۔‘‘
پشاور کے علاقے فریدآباد میں رہنے والے انیس الرحمان بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے متبادل انتظامات کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اس علاقے کے ایک خاندان کے آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے میں دو بچے شہید ہوگئے تھے۔
انہوں نے کہا:’’یہ حالات انتہائی تشویش ناک ہیں۔ میں تذبذب کا شکار ہوں کہ کیا کروں، کیا میں اپنے بچوں کو سکول بھیجتا رہوں اور ان کی زندگیاں خطرے میں ڈالوں یا ان کو گھر میں مقید رکھوں۔‘‘
وہ خوف زدہ ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اور خاص طور پر سزائے موت پر عاید پابندی ختم ہونے کے باعث ان کی جانب سے انتقامی کارروائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
پشاور کے نواحی علاقے چل گل پورہ کے گورنمنٹ پرائمری سکول کے استاد سید شکور حسین شاہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے سکول کی سکیورٹی کے حوالے سے بہت زیادہ فکرمند ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں نے فوج کے زیرِانتظام چلنے والے سکول کو نشانہ بنایا کیوں کہ شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلوں علاقوں میں ان کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا:’’ لیکن یہ پیشِ نظر رہے کہ فوج کو آپریشن کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے حمایت حاصل ہے جس کے باعث دہشت گرد حکومت کے زیرِانتظام چلنے والے سکولوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں تاکہ اسے دہشت گردوں کے انسداد کی پالیسی نرم کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ حکام کے لیے ناممکن ہے کہ وہ صوبے کے تقریباً ہر سکول کو سکیورٹی فراہم کریں۔
محکمۂ ایلیمنٹری و سیکنڈری ایجوکیشن کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں سکولوں کی تعداد 28,309ہے جن میں سے 23,290پرائمری ، 2,639مڈل ، 2029ہائی اور 361ہائر سیکنڈری سکول ہیں۔ محکمۂ تعلیم کے مطابق نجی سکولوں کی تعداد تقریباً سات ہزار ہے۔ 
ایک سینئر پولیس افسر محمد قریش خان، جو کہ اس وقت پشاور میں فارینزک لیب کے سربراہ ہیں، نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرہر سکول کو ایک سکیورٹی گارڈبھی فراہم کیا جاتا ہے تو اس صورت میں بھی یہ انتظامات انتہائی تربیت یافتہ اورسفاک دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں جب کہ اس کا مطلب 28ہزار سے زائد پولیس اہل کاروں کو سکولوں کی سکیورٹی پر تعینات کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا:’’یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘ کیوں کہ صوبائی محکمۂ پولیس پہلے سے ہی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے اور اسے اہل کاروں کی کمی کا سامنا ہے۔
پشاور کے گورنمنٹ ہائی سکول سول کوارٹرز کے پرنسپل ریاض بہار نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے سکولوں کی سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے ہدایات جاری کی ہیں لیکن یہ موزوں دکھائی نہیں دیتیں۔
انہوں نے کہا کہ ان ہدایات میں سکولوں کی بیرونی دیواروں کو اونچا کرنا، ان پر خاردار تاریں نصب کرنا، سکول داخل ہوتے وقت تلاشی لینا اور پولیس کوسکولوں میں اساتذہ اور طالب علموں کی تعداد وغیرہ کے بارے میں آگاہ کرنا شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان ہدایات کے تحت ہر استاد کو سکول اور والدین کے سکیورٹی ایڈوائزر کے طور پر کام کرنا ہوگا۔
ریاض بہار نے سوالیہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا:’’ کیا ہم نے اس کے لیے تربیت حاصل کی ہے؟ نہیں! ہماری تربیت تعلیم فراہم کرنے کے لیے ہوئی ہے۔ سکیورٹی فراہم کرنا پولیس اور سکیورٹی فورسز کی ذمہ داری ہے۔‘‘
تاہم پولیس افسر قریش خان پرامید دکھائی دیئے‘ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد سرکاری سکولوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے کیوں کہ اس طرح وہ اپنے ہمدردوں سے محروم ہوجائیں گے۔

 

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here