جنوبی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی ان کے علاقوں میں واپسی کا عمل فروری سے شروع ہوگا

0
3376

ڈی آئی خان ( فاروق محسود سے) پاکستانی فوج کا یہ اعلان کہ اندرون ملک نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی ان کے علاقوں میں واپسی کا عمل فروری 2015سے شروع ہوگا‘ ہوسکتا ہے کہ پاک افغان سرحدسے متصل علاقوں سے فوجی آپریشنوں کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کے لیے طمانیت کا باعث ہو لیکن جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پریقین نہیں ہیں کہ کیا وہ واپس جائیں گے۔ 
وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں میں 2009ء میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف ہونے والے آپریشن میں سب سے پہلے نقل مکانی کرنے والے محسود قبائلی گزشتہ سات برس سے جنوبی وزیرستان کے پڑوسی قصبوں ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور ملک کے دیگر حصوں میں رہ رہے ہیں۔
ان میں سے کچھ نے 2009ء کے آپریشن راہِ نجات کے بعد نقل مکانی کی تھی اور ان کا اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
لدھا ، جنوبی وزیرستان کے رہائشی فتح خان نے کہا:’’ میں جنوبی وزیرستان واپس جانا چاہتا ہوں لیکن فوجی آپریشن کے دوران میرا گھر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔‘‘
فتح خان نے کہا کہ اگر حکومت ان کا گھر بنادے تووہ ’’عزت کے ساتھ رہنے کے لیے‘‘ واپسی کے بارے میں سوچیں گے۔
فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ایف ڈی ایم اے) جنوبی وزیرستان کے کوارڈینیٹرسعید عمر کے مطابق ایف ڈی ایم اے کی جانب سے فوجی آپریشن کے دوران گھروں اور عوامی املاک کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے کیے گئے سروے سے یہ منکشف ہوا کہ 27,107 مکانات مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے جب کہ 80فی صد مکانات کو بدترین طریقے سے نقصان پہنچا ہے۔
جنوبی وزیرستان کے محسود اکثریتی علاقوں میں 2009ء میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے ایک برس بعد فوج کی جانب سے فتح کا اعلان کیا گیا تھا۔ آپریشن کے باعث نقل مکانی کرنے والے افراد کی اپنے علاقوں میں واپسی کا عمل چار دسمبر 2010ء کو شروع ہوا۔اب تک تقریباً 11,924خاندانوں نے اپنے علاقوں کا رُخ کیا ہے لیکن 60سے 70ہزار خاندان ہنوز واپس نہیں لوٹے۔
اسسٹنٹ پولیس افسر جنوبی وزیرستان ایجنسی نواب صفی نے فون پر نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ پڑوسی قبائلی ایجنسی شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے باعث بحالی کا عمل رُک گیا تھا لیکن یہ رجسٹریشن کا عمل مکمل ہونے کے بعد فروری 2015ء کے پہلے ہفتے میں دوبارہ شروع ہوجائے گا۔‘‘
چار جنوری 2015ء کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے پشاور میں ایک سرکاری میٹنگ میں یہ کہا تھا کہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو ان کے آبائی گھروں میں بسانے کاعمل فروری 2015ء سے مختلف مرحلوں میں شروع ہوگا۔
نواب صفی نے کہا کہ فروری کے پہلے ہفتے سے رجسٹریشن کا عمل شروع ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا:’’ امید ہے کہ فروری کے دوسرے ہفتے تک آئی ڈی پیز حال ہی میں کلیئر کروائے گئے علاقوں سراروغہ اور سروکئی میں لوٹ جائیں گے۔‘‘
ایف ڈی ایم اے کے کوارڈینیٹر برائے جنوبی وزیرستان سعید عمر نے فون پر نیوز لینز کو بتایا کہ امدادی اداروں کی جانب سے 900سے زائد کمرے اور شیلٹر تعمیر کیے گئے ہیں۔ سعودی حکومت تین سو چھوٹے گھر بنانے میں مدد فراہم کرچکی ہے اور واپس لوٹنے والے لوگوں کے لیے گھروں کا تعمیراتی سامان بھی فراہم کیا ہے۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر صالح شاہ کے مطابق گھروں کی تعمیر اور دوسرے نقصانات کے ازالے کے لیے وزیراعظم نواز شریف کو سات ارب روپے امداد کا پروپوزل ارسال کیا جاچکا ہے لیکن فی الحال حکومت نے اس جانب توجہ مرکوز نہیں کی۔
صالح شاہ نے کہا:’’ حکومت محسود آئی ڈی پیز کے نقصانات کے ازالے کے لیے کیے گئے وعدے توڑ چکی ہے۔‘‘
جنوبی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ اسلام زیب نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی ڈی پیز وفاقی حکومت اور امدادی اداروں سے اسی طرح مدد حاصل کریں گے جیسا کہ سوات، باجوڑ ایجنسی اور مہمند ایجنسی کے آئی ڈی پیز کے نقصان کے ازالے کے لیے ان کی مدد کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا:’’ واپس آنے والے آئی ڈی پیزمکمل طور پر تباہ ہونے والے گھروں کی دوبارہ تعمیر کے لیے چار لاکھ اور جزوی طور پر تباہ ہونے والے گھروں کی مرمت کے لیے ایک لاکھ 60ہزار روپے وصول کریں گے۔‘‘
سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ حکومت آئی ڈی پیز کو ان کے گھروں کی ازسرِ نو تعمیر کے لیے مالی معاونت فراہم کرے۔ انہوں نے کہا:’’ محسود قبائلی آپریشن راہِ نجات میں انسانی اور مادی دونوں اعتبار سے برے طریقے سے متاثر ہوئے ہیں۔حکومت کی جانب سے تعاون کی فراہمی سے ہی جنوبی وزیرستان کے باسیوں کے دل و دماغ جیتنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘‘
کچھ محسود قبائلی اپنے گھروں کو واپسی کے حوالے سے غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہیں جب کہ بہت سوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ 
45برس کے شیر بادشاہ نے کہا:’’ یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہے کیوں کہ ہم اپنے گھر سے دور ایک تکلیف دہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘‘ وہ آئی ڈی پی کے طور پر ضلع ٹانک کے علاقے ڈبارہ میں ایک کرایے میں مکان میں رہتا ہے۔ انہوں نے کہا:’’ یہاں ٹانک میں بجلی اور سکول کی سہولیات دستیاب ہیں لیکن ہم اطمینان محسوس نہیں کرتے کیوں کہ یہ ہمارا علاقہ نہیں ہے۔ ہم کرایے کے ایک گھر میں رہتے ہیں اور ہر ماہ 15ہزار روپے کرایہ ادا کرتے ہیں۔ یہ ہمارے وسائل کا بڑے پیمانے پر ضیاع ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here