کوئٹہ (شاہ میر بلوچ سے)پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں نیم عسکری فورس فرنٹیئر کورپس (ایف سی) اور قانون نافذ کرنے والے ادارے صوبہ بھر میں مسلح عسکریت پسندوں کے خلاف جاری سرچ آپریشن کی شدت بڑھا چکے ہیں۔
حالیہ چند ہفتوں کے دوران کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ، ژوب، زیارت، لورالائی اور پشین سمیت بلوچستان کے شمالی علاقوں میں طالبان عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر چھاپے مارے گئے۔
سیکرٹری داخلہ و قبائلی امور اکبر درانی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ بہت سے عسکریت پسند ہلاک ہو چکے ہیں یا گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو یہ ہدایت کی جاچکی ہے کہ عسکریت پسند وں کے بارے میں معلومات حاصل ہوتے ہی کارروائی کریں۔‘‘
سکیورٹی فورسز نے دسمبر کے اوآخر میں سرحدی قصبے قلعہ سیف اللہ میں دو خودکش حملہ آوروں کو ہلاک کیا اور بڑی مقدار میں اسلحہ اور باردو قبضے میں لیا۔ اکبر درانی کا کہنا ہے :’’ دونوں خودکش حملہ آوروں کا تعلق کالعدم لشکرِ جھنگوی سے تھا۔‘‘
محکمۂ داخلہ بلوچستان کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کوئٹہ اور صوبے کے دوسرے علاقوں سے 400غیر قانونی افغان مہاجرین کو حراست میں لیا ہے۔
اکبر درانی نے کہا:’’ بلوچستان حکومت کے پاس تین لاکھ 27ہزار افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں۔ افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد غیر قانونی طور پر رہ رہی ہے۔ غیر قانونی مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاچکا ہے جنہیں افغان حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔ ‘‘
صوبائی وزیرِ داخلہ بلوچستان سرفرار بگٹی سرچ آپریشنوں کے دوران ہلاک اور گرفتار ہونے والے طالبان عسکریت پسندوں کی درست تعداد بتانے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم جلد تعداد کے بارے میں آگاہ کریں گے۔‘‘
سرفرازبگٹی نے کہا کہ بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے خلاف بھی آپریشن کی شدت کو بڑھایا جاچکا ہے۔ انہوں نے کہا:’’ کم از کم آٹھ بلوچ عسکریت پسند جن میں ایک کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی(بی آر اے) کا رُکن بھی شامل تھا، مارے جاچکے ہیں جب کہ 15بلوچ عسکریت پسندوں کو حراست میں لیا گیا ۔‘‘
موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق سرچ آپریشن مکران ڈویژن کے تین اضلاع تربت، پنجگور، گوادر اور آواران میں جاری ہے۔
فرنٹیئر کورپس (ایف سی) کے سات اہل کارکوئٹہ سے 150کلومیٹر شمال میں ضلع لورالائی میں میختار کے علاقے میں چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے میں مارے گئے۔ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے دہشت گردی کی اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کی۔
اکبر درانی نے کہا :’’ وہ لوگ جنہوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں‘ وہ خواہ بلوچ عسکریت پسندہوںیا طالبان دہشت گرد، ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نپٹا جارہا ہے۔‘‘
بلوچستان حکومت صوبہ بھر میں ان دکانوں کے خلاف سرچ آپریشن کرچکی ہے جہاں نفرت انگیر مواد پرنٹ، شایع اور فروخت کیا جارہاہے۔
محکمۂ داخلہ کے ایک افسرنے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا:’’صوبہ کے 32اضلاع سے سینکڑوں دکان داروں اور پبلشرز کو حراست میں لیا گیا ہے۔ دکان داروں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں اور بہت سوں کو خبردار کرکے چھوڑ دیا گیا ہے۔‘‘
طالبان عسکریت پسندوں نے ضلع سیف اللہ کے نزدیک قومی شاہراہ سے ایک مسافر بس اور نجی کارسے9افراد کو اغوا کیا ۔ انہوں نے ایک مغوی کو قتل کر دیا جس کی شناخت پاکستان ایئر فورس کے اہل کار کے طور پر کی جاچکی ہے۔
انہوں نے، دو افرا، جن میں ایک طالب علم اورایک ڈرائیورشامل تھا، کو یہ علم ہونے پر چھوڑاکہ ان کا تعلق کسی سرکاری محکمے سے نہیں تھا۔
اغوا کاروں کی کھوج لگانے کے لیے موسیٰ خیل اور قلعہ سیف اللہ میں سرچ آپریشن شروع کیا جاچکا ہے۔ سیکرٹری داخلہ اکبر درانی نے کہا:’’ سکیورٹی فورسز نے کچھ مشکوک افراد کو حراست میں لیا ہے جو اغوا کاروں کو خوراک فراہم کرتے تھے۔ جلد ہی بقیہ چھ مغویوں کو رہا کروا لیا جائے گا۔‘‘
وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے کہاکہ یہ آپریشن عسکریت پسندوں اور شدت پسندوں کی پسپائی تک جاری رہے گا۔