لاہور:برطانوی راج کا150برس قدیم قانون ثقافتی سرگرمیوں کے انعقاد کی راہ میں حائل

0
4201

لاہور (شہریار ورائچ سے) تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے دھمکیوں کے باعث لاہور میں ثقافتی سرگرمیاں گزشتہ کئی برسوں سے محدود ہوچکی ہیں۔ اور نو آبجیکشن سرٹفیکیٹ (این او سی) حاصل کرنے کی شرط ان لوگوں کے لیے خاص طور پر بڑی رکاوٹ کا باعث بنی ہے جو شہر میں ثقافت کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا اظہار مختلف فنکاروں اور ثقافتی سرگرمیوں کے دلدادہ افراد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کیا۔ 
پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے سابق سربراہ توقیر ناصر نے این او سی حاصل کرنے کی شرط کی تاریخ کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا:’’برطانوی حکومت نے1860ء میں برصغیر میں نوآبجیکشن سرٹفیکیٹ متعارف کروایا تاکہ ان کے اقتدار کے خلاف کسی بھی قسم کی سیاسی تحریک یا عوامی اجتماع کو روکا جاسکے۔حکومتِ پاکستان 1947ء میں تقسیم کے فوری بعد اس قانون کا نفاذ عمل میں لائی۔‘‘انہوں نے کہا کہ یہ قانون، جو کبھی برطانوی راج میں سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہوتا تھا، پاکستان میں ثقافتی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ 
ضلعی انتظامیہ کسی بھی تقریب کے مقاصد اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے بعددرخواست گزار کو این او سی جاری کرنے کی مجاز ہے۔ پولیس پر بھی یہ قانونی ذمہ داری عاید ہوتی ہے کیوں کہ ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفیسر (ڈی سی او) اس معاملے کو پولیس کے سپرد کردیتا ہے تاکہ وہ سکیورٹی کے امور کو دیکھ سکے۔ قوانین کے مطابق پولیس اگر تقریب کا جائزہ لینے کے بعد سکیورٹی کو کسی بھی قسم کا خطرہ محسوس کرتی ہے تو این او سی واپس لے سکتی ہے۔
کسی بھی نوعیت کے عوامی اجتماع پر فوجداری تعزیرات 1898ء کی دفعات 144اور 145کا اطلاق ہوتاہے۔ سیکشن 144کے تحت مجسٹریٹ کسی بھی علاقے میں 10 سے زیادہ افراد کے جمع ہونے کو اجتماع قرار دے سکتا ہے، لاہور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ڈاکٹر طارق چوہان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ دفعہ 145کو اس صورت میں نافذ کیا جاسکتا ہے جب ہم تصادم یا سکیورٹی کے حوالے سے کوئی خطرہ محسوس کریں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ضلعی حکومت اور مقامی پولیس سٹیشن ان دفعات کے تحت کسی بھی درخواست کورَد یا درخواست گزار کی این او سی کے حصول میں مدد کرسکتے ہیں۔
ٹی وی کے اداکار اور رفیع پیر تھیٹر کے ڈائریکٹر عثمان پیرزادہ نے کہا:’’ ان دفعات کا اطلاق سیاسی جلسوں ، مظاہروں اور جلوسوں پر ہوتا ہے تاکہ حفاظتی حصار کی خلاف ورزی کو روکا جاسکے۔ ان کا موسیقی یا ڈرامہ فیسٹیول پر اطلاق میری سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے علاوہ کسی بھی ملک میں این او سی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیوں کہ ہماے رویے ثقافتی سرگرمیوں کے قطعی طور پر خلاف ہیں۔ 
اجوکا تھیٹر کی ڈائریکٹر اور انسانی حقوق کی کارکن مدیحہ گوہرکہتی ہیں:’’ حکام نے این او سی حاصل کرنے کے عمل کو ہمارے لیے بہت زیادہ باعثِ حفت بنا دیا ہے۔ سب سے پہلے توہم ضلعی حکومت کے دفتر کے چکر لگاتے ہیں جس کے بعد مقامی پولیس حکام کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں‘ یہ حالات قابلِ رحم ہیں۔‘‘انہوں نے کہا کہ ان فن کاروں اور طائفوں کی مدد کرنے کے لیے ،جو فنون و ثقافت کی ترویج کے لیے کوشاں ہیں،اس مسئلے کافوری حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔
یہ کسی بھی ثقافتی تقریب کے منتظمین کے لیے باعثِ تشویش ہوتا ہے جب وہ اس کی تیاری مکمل کرچکے ہوں اور پولیس حکام ان سے رابطہ کریں اور کہیں کہ ان کا این او سی منسوخ کیا جاچکا ہے۔ دسمبر میں رفیع پیر تھیٹر کے تحت منعقد کیے جانے والے تیرہویں عالمی صوفی فیسٹیول کو بھی اسی قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 
فیسٹیول کے منتظم سیدان پیرزادہ نے کہا:’’ یہ صورتِ حال انتہائی پریشان کن تھی جب پولیس نے این او سی کی منسوخی کے بارے میں کہا جو کہ الحمرا کلچرل کمپلیکس میں تیرہویں عالمی صوفی فیسٹیول کے لیے جاری ہوا تھا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ادارہ لاہور آرٹس کونسل اس میں شراکت دار تھا اور پنجاب کے گورنر محمد سرور نے بطور مہمانِ خصوصی افتتاحی تقریب میں آنا تھا جس میں ایرانی اور شامی بینڈز نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنا تھا۔ 
گورنر محمد سرور نے مداخلت کی اورفیسٹیول کے افتتاح کی یقین دہانی کروائی۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ثقافتی سرگرمیوں کے انعقاد پر عاید اس شرط کو ختم کرنے کے لیے کوشش کریں گے۔ 
پنجاب کے صوبائی وزیربرائے اطلاعات و ثقافت رانا ارشد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں فن کاروں اور ثقافتی سرگرمیوں کے منتظمین کی مشکلات سے آگاہ ہوں اور اس معاملے کو کابینہ کے اجلاس میں اٹھا چکا ہوں۔‘‘ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
فن کار اور ثقافت کے دلدادہ افراد عدالت سے انصاف حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔عثمان پیرزادہ کا کہنا تھا:’’ ہم ان لوگوں پر عاید کی گئی اس تکلیف دہ پابندی کے خلاف، جو عوام کو تفریح فراہم کرنے اور ان کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کررہے ہیں، عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ رفیع پیر تھیٹر اس مہم میں اکیلا نہیں ہے بلکہ دوسری شخصیات اور سماجی کارکن، جیسا کہ مدیحہ گوہر، بھی ان کی حمایت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک بار لاہور میں عسکریت پسندوں نے ہمیں روکنے کے لیے ہماری تقریب میں بم چلایا تھا اور اب ضلعی انتظامیہ قانون کے ذریعے اسی مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
ان سطور میں یہ ذکر کرنا انتہائی اہم ہے کہ مذہبی گروہوں کی اکثریت اپنے جلوسوں اور مذہبی تقریبات کے انعقاد کے لیے ضلعی انتظامیہ سے این او سی لینے کی زحمت گوارہ نہیں کرتی لیکن کوئی بھی ان کو روکنے کی جرأت نہیں کرتا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here