پاکستان کے غریب ترین صوبے بلوچستان میں ایک بار پھر خشک سالی

0
5411

کوئٹہ (شاہ میر بلوچ سے) بارشوں کا موسم آچکا ہے لیکن بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا جس کے باعث بلوچستان میں خشک سالی کے خدشات ایک بار پھر ابھر آئے ہیں جو ابھی گزشتہ خشک سالی سے ہونے والے نقصانات سے نبرد آزما ہے‘ یہ تقریباً 11برس تک جاری رہی تھی۔ 
پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق 1997ء سے 2002ء تک جاری رہنے والی خشک سالی بلوچستان کی تاریخ کی بدترین تھی۔ یہ اس عرصہ کے دوران معاشی نمو کورفتار سست کرنے کی ایک بڑی وجہ بنی: وزارت حزانہ کے اعداد و شمار کے مطابق2000ء سے 2002ء تک جاری رہنے والی خشک سالی نے قومی خزانے کو 25ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔
موسمِ گرما بارشوں کے بغیر ہی گزر گیا جب کہ موسمِ سرما کی بارشیں ابھی ہونی ہیں‘ ماہرینِ ماحولیات کہتے ہیں کہ بلوچستان کے بالائی علاقوں میں خشک سالی ایک بار پھرشروع ہونے جارہی ہے۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر ( آئی یو سی این) کی بلوچستان شاخ کے منیجر فیض کاکڑ نے کہا:’’ اس موسمِ سرما میں قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، پشین، چاغی، زیارت، خضدار، لورالائی، ژوب، موسیٰ خیل، بارکھان، کوہلو، نوشکی اور اس کے نواحی علاقوں میں بالکل بارش نہیں ہوئی۔ صوبے سے لوگ بڑی تعداد میں ملک کے دوسرے علاقوں اور افغانستان میں ہجرت کرچکے ہیں کیوں کہ صوبہ میں لوگ اپنی گزر بسر کے لیے ذراعت اور لائیوسٹاک پر انحصار کرتے ہیں۔‘‘
پی ڈی ایم اے کے مطابق 1997ء سے 2002ء تک جاری رہنے والی خشک سالی کے باعث پہلے سے ہی ایک غریب اور خوراک کی قلت کا شکار صوبے میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا‘اور متاثرہ آبادی مختلف بیماریوں اور کم خوراکی کا شکار ہوئی۔
چارے کی قلت کے باعث مویشی متاثر ہوئے جو دیہی معیشت کی بقاء کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ تقریباً 80فی صدزراعت اور باغات تباہ ہوگئے جس کے باعث لوگ خشک سالی سے متاثرہ علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ 
پی ڈی ایم اے کے مطابق 1997ء سے 2002ء تک جاری رہنے والی خشک سالی کے باعث امدادی سرگرمیوں پر بڑے پیمانے پراخراجات ہوئے کیوں کہ خشک سالی سے متاثرہ 28میں سے 22اضلاع میں تعاون فراہم کیا گیا۔ اس خشک سالی کی وجہ سے کانگو بخار کی وبا بھی پھیلی۔ لوگ خشک سالی کے باعث مختلف بیماریوں سے متاثر ہوئے: ہزاروں لوگ جن میں عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی‘ کم خوراکی، ٹی بی، اور ہیپا ٹائٹس سے متاثر ہوئی۔ شدید ترین متاثرہ علاقوں میں تقریباً80فی صد مویشی مر گئے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق بلوچستان کے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں اس عرصہ کے دوران اوسطاًتقریباً2سے 25ملی میٹر تک بارش ہوئی جو کہ ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ تاہم ماہرینِ ماحولیات خطے میں موسمی تبدیلی کی وجہ خشک سالی کو قرار دیتے ہیں۔خشک سالی تواترکے ساتھ صوبے کو متاثر کرتی رہی ہے جو کہ پاکستان کے 44فی صد رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
فیض کاکڑ نے کہا:’’ 2010ء سے قبل اوسطاً سالانہ 250ملی میٹر بارش ہوتی تھی لیکن یہ سلسلہ اچانک ہی رک گیا یا کوئی بارش نہیں ہوئی۔پہلے ہلکی بارشیں ہوتی تھیں لیکن گزشتہ سات ماہ سے بلوچستان کے اکثریتی علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوا۔ ستمبر کا مہینہ اس قدر گرم کبھی نہیں رہا۔ اسی طرح موسم مئی تک ٹھنڈا رہتا ہے جو کہ ایک گرم مہینہ ہوتا تھا۔ یہ لازمی طور پر موسم میں غیرفطری بدلاؤ ہے۔‘‘
کتاب ’’ پاکستان میں قومی آفات‘‘ کے مصنف عرفان بیگ، جو کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں‘کہتے ہیں کہ موسمی بدلاؤ نے برے طریقے سے پھلوں کی پیداوار، معیار اور زرخیر زمین کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے کہا:’’صوبے نے 1997ء سے 2002ء تک خشک سالی کا سامنا کیا لیکن حکومت نے اس آفت پر قابو پانے کے لیے کچھ نہیں کیا‘ لوگ اس سے تاحال متاثر ہو رہے ہیں۔‘‘
موسمِ سرماکا دورانیہ کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں کم ہوچکا ہے۔عرفان بیگ کے مطابق نومبر میں برف باری ہوتی ہے لیکن اس بار یہ جنوری کے اوآخر تک نہیں ہوئی۔ عرفان بیگ کہتے ہیں:’’ اگرچہ اب بھی بہت زیادہ سردی ہوتی ہے لیکن یہ بہت کم دنوں تک جاری رہتی ہے۔‘‘
بلوچستان میں کاریز کا نظام ہے‘ یہ اس علاقے میں آب پاشی کا روایتی طریقہ ہے جس میں زیرِزمین پانی کو استعمال میں لایا جاتا ہے لیکن اب اسے استعمال کرنے کا رجحان رفتہ رفتہ کم ہوتا جارہا ہے کیوں کہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح میں کمی ہورہی ہے۔واضح رہے کہ لوگ آب پاشی اور مویشیوں کے لیے کاریز پر انحصار کرتے ہیں۔ 
فیض کاکڑ کہتے ہیں:’’ ہم ان علاقوں سے لوگوں کو ہجرت کرتے ہوئے دیکھ چکے ہیں جو حالیہ خشک سالی سے متاثر ہوئے ہیں۔ صوبے کے سرسبز علاقوں پر خشک سالی برے طریقے سے اثرانداز ہوئی ہے ‘ اور لوگ مویشیوں کے لیے چارہ بھی نہیں اگا سکے۔‘‘
بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے خشک سالی سے متاثرہ اضلاع کے لیے گزشتہ برس اکتوبر میں ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا تھا اور ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ حکومت دو کمیٹیاں قائم کر چکی ہے جن میں صوبائی وزرا سرفراز بگٹی اور عبداللہ بابت شامل ہیں تاکہ وہ خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں اور یہ تسلی کریں کہ یہ رقم شفاف طریقے سے خرچ ہورہی ہے یا نہیں۔
تام ماہرینِ ماحولیات کہتے ہیں کہ یہ رقم خشک سالی سے متاثرہ آبادی کے لیے بہت کم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے اہم یہ ہے کہ اگر جنوری میں بلوچستان میں بارشیں نہیں ہوتیں تو اس سے غربت کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔
غریب لوگوں کی مدد کے لیے عالمی امدادی اداروں سے رابطہ نہیں کیا گیا کیوں کہ حکومت کہتی ہے کہ خشک سالی اس قدر شدید نہیں ہے اور حکومت اس پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ 
جب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے نیوز لینز پاکستان نے سوال کیا کہ کیا حکومت عالمی امدادی اداروں سے مدد کی اپیل کرنے کے بارے میں منصوبہ بندی کررہی ہے تو انہوں نے کہا:’’ سب سے پہلے تو ہمیں چیزوں کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے‘ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم متاثرہ لوگوں کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔‘‘
فیض کاکڑ کہتے ہیں کہ حکومت کے لیے ان حالات پر قابو پانا یا خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو امداد فراہم کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا:’’ مزید بارشوں یا عالمی مدد کی ضرورت ہے۔ اور ہم یہ امید کررہے ہیں کہ یہ خشک سالی طویل نہیں ہوگی کیوں کہ حکومت کو ابھی گزشتہ خشک سالی کے مضمرات سے نکلنا ہے جو آٹھ برسوں تک جاری رہی تھی۔‘‘
فیض کاکڑ کے خیال میں اگر ناگہانی آفات سے نپٹنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں بنایا جاتا تو آنے والے مہینوں میں بارش نہ ہونے کی صورت میں کاشت کاروں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا:’’ حکومت نے فی الحال عالمی امدادی اداروں سے رابطہ نہیں کیا جس کامطلب غالباً یہ ہے کہ طویل خشک سالی سے نپٹنے کا کوئی باضابطہ منصوبہ موجود نہیں ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here