کوئٹہ (شاہ میر بلوچ سے)بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی نوجوان طالبہ نرگس علی چنگیزی کا صحافی بننے کا خواب ٹوٹ چکا ہے۔
نرگس نے اپنے زرد چہرے کو سفید چادر سے ڈھانپ رکھا تھا، اس نے کہا:’’ قصہ خواں بننے کا احساس عظیم تر تھا‘ میں خواتین کی ان کہی کہانیاں سنانا چاہتی تھی۔‘‘
جون 2013ء کے ایک روز وہ یونیورسٹی کے باہر کھڑی اپنی بس کی جانب بڑھ رہی تھی جب بم دھماکہ ہوا جو اس قدر شدید تھا کہ وہ گر گئی۔ اس نے کہا:’’ جب مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو ایک ہسپتال میں زیرِعلاج دیکھا۔‘‘
15جون 2013ء کوکوئٹہ کی سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کی ہزارہ طالبات کو لے کر جانے والی بس پر بم دھماکے میں 14افراد ہلاک اور 19زخمی ہوگئے۔ یہ اس روز تواتر سے ہونے والے بم دھماکوں کا حصہ تھاجس میں کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی ملوث تھی جو کوئٹہ کی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے خلاف جاری پر تشدد سرگرمیوں میں نمایاں رہی ہے جن میں ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
جب یہ بم دھماکہ ہوا تو نرگس سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی میں صحافت کی طالبہ تھی۔ و ہ اور اس کی ایک سہیلی نے، جو اس وقت اس کی ہم جماعت بھی تھی، اس اندوہناک حملے کے بعد تعلیم کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کہا کہ بم دھماکوں نے اس کے دل میں اس قدر خوف پیدا کیا جو شاید ہمیشہ قائم رہے۔
نرگس نے کہا:’’ میَں بم دھماکے کے بعد تین ماہ تک سو نہیں سکی تھی۔ اب تک میرے کانوں میں لڑکیوں کی چیخ و پکارکی گونج سنائی دیتی ہے۔‘‘
نرگس نے کہا کہ اسی برس تقریباً 50فی صد سے زائد طالبات، جو سب کی سب ہزارہ تھیں، نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا: وہ کہتی ہے:’’ یہ صرف بم دھماکہ ہی نہیں تھا بلکہ یونیورسٹی انتظامیہ کا رویہ بھی تھا جو کچھ یوں پیش آئی جیسا کہ ہم ان کی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہوں ۔‘‘
بم دھماکے کے فوری بعد میڈیا میں یہ خبر آئی کہ یونیورسٹی میں ہونے والا حملہ فرقہ ورانہ نوعیت کانہیں تھا۔تاہم بعدازاں ہونے والی تفتیش سے یہ پتہ چلا کہ ہزارہ طالبات ہی اس بم دھماکے کا اہم ترین ہدف تھیں‘ اگرچہ اس میں بہت سی دوسری طالبات بھی ہلاک ہوئیں۔
یہ بم دھماکہ طالبات کے لیے شروع ہونے والے طویل صبر آزما لمحات کی ابتدا تھا جس کے بعد ہزارہ کمیونٹی کی خواتین کے ہمراہ سفر کرنا بھی ایک خطرہ تصور کیا جانے لگا۔ نرگس نے کہا:’’ یونیورسٹی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ بس ہزارہ کمیونٹی کی پانچ سے زائد طالبات کو نہیں لے کر جائے گی۔‘‘
ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی یونیورسٹی کی ایک سابق طالبہ عاصمہ محمد محسن نے کہاکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔
عاصمہ نے کہا:’’ ہزارہ کمیونٹی کوبالکل الگ کر دیا گیا‘ طالبات ہمارے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھیں‘ ڈرائیور خوف زدہ تھے۔ میَں نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور اسلام آباد آگئی۔‘‘
اس نے کہا کہ حالات میں اب بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی: ڈرائیور اور طالبات ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ساتھ سفر کرنے سے خوف زدہ ہیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ کی ایک رکن نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی نے بسوں کے روٹ تبدیل کر دیے اور سکیورٹی وجوہات کے باعث ہزارہ کمیونٹی کی صرف پانچ لڑکیوں کو بس میں سوار ہونے کی اجازت دی گئی۔
ان کا کہنا تھاکہ یونیورسٹی کے اردگرد سکیورٹی انتظامات کو بہتر بنایا گیا اور اضافی سکینر نصب کیے گئے۔ انہوں نے کہا:’’ یونیورسٹی میں طالبات کے داخلہ لینے کی شرح کم نہیں ہوئی۔ یہ افسوس ناک اور شاذ و نادر ہونے والے واقعات میں سے ایک تھا۔‘‘
کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی پاکستان میں ہونے والے ہولناک فرقہ ورانہ حملوں کا بدترین طور پر نشانہ بنی ہے جن کا آغاز 1980ء کی دہائی میں افغان جہاد کے برسوں کے دوران سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والی پراکسی وار کے باعث ہوا۔
اگرچہ کمیونٹی کی نقل و حرکت کو کوئٹہ کے دو علاقوں تک محدود کر دیاگیا ہے لیکن اس کے ارکان اپنے چہرے کے واضح مغل حدوحال کے باعث آسانی سے شناخت ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ گزشتہ کئی برسوں سے ہزارہ کمیونٹی پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن ان میں 2001ء کے بعد شدت آئی ۔ 2013ء کا برس بدترین تھا جب یونیورسٹی کی بس کو بم دھماکے سے نشانہ بنایا گیا۔
10جنوری 2013ء کو ہزارہ کمیونٹی کے اکثریتی علاقے علمدار روڈ کے ایک سنوکر ہال میں ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم 115افراد ہلاک جب کہ 270سے زائد زخمی ہوگئے۔ ایک ماہ بعد 16فروری کو کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ہونے والے بم دھماکے میں ہزارہ کمیونٹی کے73افراد ہلاک اور کم از کم 180زخمی ہوگئے۔
ہزارہ ڈیموکرٹیک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے رہنماء رضا محمد وکیل نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہتر رہے گا کہ اگر حکومت ہزارہ کمیونٹی کے مرد و خواتین کو نقل و حرکت روکنے اور سکیورٹی کے منصوبوں پر عمل کرنے کا کہنے کی بجائے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔