پاکستان میں ڈرون حملوں کے سویلین متاثرین کا کوئی پرسانِ حال نہیں

0
4575

ڈی آئی خان( فاروق محسود سے) ملک دین کو دھماکے کے بعد بیہوش ہونے سے قبل مسخ شدہ لاشیں،اُڑتا ہوا گرد و غبار اور دھواں یاد ہے جس نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
ملک دین، اس دن کوجب جنوبی وزیرستان میں ایک نمازِ جنازہ پر ڈرون حملے میں ایک سو افراد مارے گئے تھے،یاد کرتے ہوئے بتاتا ہے:’’مجھے چار روز بعد میرانشاہ کے ایک ہسپتال میں ہوش آیا۔‘‘
25برس کا ملک دین 24جون 2009ء کو ہونے والے ڈرون حملے میں بچ گیا تھا جس میں پانچ بچے اور 35قبائلی ہلاک ہوئے۔ وہ جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا کے گاؤں چناکئی میں مقامی قبائلی خواز ولی کی وفات پر اظہارِ تعزیت کے لیے گیا تھا جب ڈرون کے ذریعے نمازِ جنازہ کو نشانہ بنایا گیا۔
ملک دین اب جنوبی وزیرستان کی سرحد سے متصل ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں رہنے پر مجبور ہے۔ فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق وہ ان 62ہزار خاندانوں میں سے ایک کارکن ہے جنہوں نے 2009ء کے فوجی آپریشن کے بعد اپنا گھر بار چھوڑا تھا۔قبائلی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 80ہزار ہے۔
ڈرون حملے میں زخمی ہونے سے قبل ملک دین شمالی وزیرستان ایجنسی کی پہاڑی تفریح گاہ رزمک کے گورنمنٹ ہائی سکول میں زیرِتعلیم تھا۔ وہ کہتا ہے:’’ میں جماعت دھم کا طالب علم تھا اور سائنس کے مضامین پڑھ رہا تھا۔ میں نے جماعت نہم میں 525میں سے 332مارکس حاصل کیے تھے۔ ڈرون حملے سے محض دس روز قبل ہی امتحانات کے نتائج کا اعلان ہوا تھا۔‘‘
ڈرون حملے سے اس کے بازو، ٹاک اور کولہے کی ایک جانب زخم آئے تھے۔ اس کی نہ صرف ٹھوڑی فریکچر ہوگئی تھی بلکہ سرپہ بھی چوٹیں آئیں۔
وہ کہتا ہے:’’ مجھے میرانشاہ ہسپتال لے کر جایا گیا۔ ابتدائی علاج کے بعد بنوں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں پر آٹھ مختلف طرح کے آپریشن ہوئے۔‘‘
ملک دین کو صحت یاب ہونے میں تین برس کا عرصہ لگ گیا۔ 2012ء میں اس نے دوسرے قبائلیوں کی طرح خلیجی ممالک جانے کا فیصلہ کیا جہاں پر ان علاقوں کے باسی ڈرائیور، مزدور اور صنعتوں میں مشین آپریٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ 
جب خلیجی ممالک جانے کے خواہش مند کارکنوں کے لیے ضروری قرار دیئے گئے بلڈ ٹیسٹ کا رزلٹ آیا تو اس پر سکتے کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔
ملک دین نے نیوزلینز کو بتایا:’’ ڈاکٹر نے کہا کہ مجھے ایڈز کا مرض لاحق ہوچکا ہے۔ اس روز سے مکمل طور پر ناامید ہوچکا ہوں اور ایک زندہ لاش کی طرح ہوں۔‘‘
وہ کہتا ہے کہ وہ ایچ آئی وی، ایڈز سے اس وقت متاثر ہوا جب ڈرون حملے سے جسم کے متاثرہ زخمی حصوں کے علاج کے لیے اسے آلودہ خون لگایا گیا۔ میرانشاہ میں ہسپتال نہ صرف چھوٹا ہے بلکہ سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ڈاکٹر نے ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے زخمیوں کے ساتھ آنے والوں سے خون کا عطیہ لیا۔ وہ کہتا ہے کہ وہ یقینی طور پراس وقت ہی اس وائرس سے متاثر ہوا۔
ملک دین کی شادی ڈرون حملے سے قبل ہوگئی تھی۔ اس کی ایک دو برس کی بیٹی زینب ہے۔ جب اس کے اہلخانہ کو معلوم ہوا کہ ملک دین اس وائرس سے متاثر ہوگیا ہے تو انہوں نے اس کی اہلیہ اور بیٹی کے ٹیسٹ بھی کروائے۔
ملک دین کے والد احمد دین نے کہا:’’ خوش قسمتی سے وہ دونوں صحت مند ہیں اور ایچ وی آئی، ایڈز کے وائرس سے محفوظ رہی ہیں۔‘‘
لندن کے بیورو برائے تحقیقی صحافت (Bureau of Investigative Journalism)نے 2004ء سے 2014ء تک ہونے والے ڈرون حملوں کا ریکارڈ مرتب کیا ہے جس کے مطابق امریکی ڈرون حملوں میں تقریباً2396سے 3882افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں عام شہریوں کی تعداد 416سے 959تک ہے جب کہ بچوں کی تعداد 168سے 204اور زخمیوں کی تعداد 1131سے 1704تک ہے۔ 
لندن اور نیویارک میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیم ریپرائیو) (Reprieveنے 25نومبر2014ء کو جاری ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں کہا :’’ امریکی ڈرون حملوں میں ہر مطلوبہ ہدف کو نشانہ بنانے کے دوران 28نامعلوم افراد بھی ہلاک ہوئے۔‘‘
ریپرائیوکی رپورٹ میں جامع انداز سے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح معصوم اور نامعلوم افراد امریکی ڈرون حملوں میں مارے جاتے رہے ہیں: ’’ خبروں کے مطابق پاکستان میں کئی ایک واقعات میں 24افراد مارے گئے یا نشانہ بنے‘ ڈرون حملے درست نشانے پر نہ لگنے کے باعث 142بچوں سمیت 847افرادہلاک ہوئے۔‘‘
رپورٹ میں مزید وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح امریکی ڈرون حملوں میں خودکش حملہ آوروں کے ایک نظریہ ساز کوہلاک کرنے کی کوششوں میں 128افراد مارے گئے :’’امریکہ کو پاکستانی ہدف قاری حسین کو نشانہ بنانے کے لیے چھ بار کارروائی کرنا پڑی جن میں 13بچوں سمیت128افراد ہلاک ہوئے۔‘‘
امریکی حکومت نے پاکستان میں ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے نامعلوم اور معصوم متاثرین کے لیے ایک پروگرام شروع کیا تھا۔ تاہم قبائلیوں کے خیال میں پاکستانی حکام کی جانب سے ان کے ساتھ درست اور مناسب برتاؤ نہیں کیا گیا۔ اس سے بھی برا یہ ہوا کہ ان کے ساتھ نہ صرف دہشت گردوں بلکہ خطرناک دہشت گردوں کا سا سلوک کیا گیا کیوں کہ وہ اس جگہ پر موجود تھے جہاں پر مطلوب ہدف کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ 
ملک دین کے والد بتاتے ہیں:’’ میں اپنے بیٹے کے علاج پر 15لاکھ روپے خرچ کرچکا ہوں۔‘‘ 
ایک قبائلی معززملک محسود کہتے ہیں:’’ ڈرون حملوں میں زخمی ہونے والے مرد و خواتین اور بچوں کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا اور نہ ہی کسی غیر سرکاری تنظیم اور حکومت نے ان کی مدد کی۔‘‘
ایک مقامی این جی او کے سربراہ نے سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر نام نہ بتانے کی شرط پر کہا: ’’ بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں عسکریت پسندی میں زخمی ہونے والے متاثرین کی مدد کر رہی ہیں لیکن ڈرون حملوں کاشکار ہونے والے ان کی ترجیح نہیں ہیں۔‘‘
ملک دین نے کہا کہ انہوں نے معاشی امداد کے حصول کے لیے بہت سی غیر سرکاری تنظیموں سے رابطہ کیا لیکن ہر ایک نے ان کے ساتھ کچھ یوں برتاؤ کیاجیسا کہ وہ ایک دہشت گرد ہیں۔
مئی 2013ء میں پشاور ہائیکورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں امریکی ڈرون حملوں کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ایسی کارروائیوں کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت جاری کی کہ وہ اس بارے میں امریکہ سے بات کرے لیکن ڈرون حملوں کے سدِباب اور متاثرین کی امداد کے لیے عملی طور پر کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ 
قبائلی رہنماء بادشاہی خان محسود کہتے ہیں:’’ وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں میں یتیم ہونے والے بچوں کی امداد کے لیے کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ اگر ان کے ساتھ بچوں جیسا سلوک نہ کیا گیا تو ممکن ہے کہ یہ دہشت گردوں اور ریاست مخالف عناصر کے ساتھ مل جائیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here