پشاور کے صحافیوں کی مشکلات‘ ازالہ کون کرے گا؟

0
4850

پشاور (انعام اللہ سے)صوبہ خیبرپختونخوا کے صحافی ترقی کے مواقع نہ ہونے، قلیل تنخواہوں اور ملازمت وزندگی کا تحفظ نہ ہونے کے باعث اپنے پروفیشن سے بیزار ہوچکے ہیں۔
ملازمت کا تحفظ صرف یہ نہیں کہ آپ کی ملازمت محفوظ ہے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ تنخواہوں میں مستقل طور پر اضافہ ہوتا رہے تاکہ ایک صحافی یہ محسوس کرے کہ وہ ایک ایسے ادارے میں کام کر رہایا کر رہی ہے جہاں ترقی کے مواقع موجود ہیں۔ پاکستان میں میڈیا کے بہت سے اداروں نے صحافیوں کو بروقت مناسب تنخواہیں ادا نہ کرنا وطیرہ بنا لیا ہے جس کے باعث رپورٹنگ اور اخبارات کا ادارتی معیار متاثر ہوا ہے۔ تاہم اس سے مالکان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا جو حکومت کی مناسب نگرانی یاشایع کیے جانے والے ادارتی مواد کے حوالے سے مناسب میکانزم کے بغیر اپنے ادارے چلا رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر عمومی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیامیں صحافتی اقدار کو یکسر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ پشاور کی طرح کے شہروں میں یہ حقیقت زیادہ واضح اور تکلیف دہ ہے۔
پشاور سے روزانہ 25روزنامے شایع ہوتے ہیں جن سے تقریبا دو سو صحافی منسلک ہیں۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی وسیم خٹک کے مطابق ناکافی تنخواہ اور ترقی کے مواقع نہ ہونے کے باعث پشاور کے صحافی پیشہ ورانہ طور پر دلجمعی سے کام نہیں کرتے ۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ اب صحافت کا پیشہ چھوڑ رہے ہیں اور سماجی شعبوں سے منسلک ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک ایسا پیشہ جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے‘ واچ ڈاگ کا کردار ادا کرتا ہے‘ عوام کی معلومات تک رسائی ممکن بناتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ مناسب طور پر کام نہیں کرسکتا کیوں کہ اس سے منسلک صحافی اور کارکن مالکان کے غیر پیشہ ورانہ رویے اور کرپشن کا شکار ہورہے ہیں۔
ان حالات میں صحافیوں کی مدد کے لیے صرف حکومت ہی باقی رہ جاتی ہے۔ جب تک حکومت یہ یقین دہانی نہیں کرواتی کہ صحافیوں کے ساتھ بھی دوسرے شعبوں کے ملازمین کی طرح کا سلوک روا رکھا جائے گا تو حالات مزید خراب ہوں گے۔
الیکٹرانک میڈیا اور اس سے جڑے گلیمر کے باعث صحافیوں کو شوبزنس کی صف میں شامل کیا جارہا ہے۔ ایک انگریزی اخبار سے منسلک مقامی صحافی رحمت خان اسے فریبِ نظر سے تعبیر کرتے ہیں۔ صورتِ حال تو یہ ہے کہ صحافیوں کو حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم اجرت 12ہزار روپے ماہانہ بھی ادا نہیں کی جارہی۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ میَں اپنی تنخواہ کے بارے میں بتاتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔ مجھے یوٹیلیٹی بلز، گھر کا کرایہ اور دیگر اخراجات ادا کرنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔‘‘
وسیم خٹک نے کہاکہ صرف چند اخبارات ہی ملازمین کو باقاعدگی سے مناسب تنخواہیں ادا کر رہے ہیں۔ عالمی اخبارات یا خبر رساں اداروں کا ریکارڈ اس حوالے سے بہترین ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے دیگر تمام ادارے اپنے ملازمین کو سِرے سے ہی نظرانداز کر رہے ہیں۔
ویج بورڈ ایوارڈ کی تشکیل نیوزپیپرز ایمپلائز ایکٹ 1973ء کے تحت عمل میں لائی گئی تھی جس کا مقصد صحافیوں کو بروقت اور مناسب تنخواہوں کی ادائیگی یقینی بنانا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر اچھی چیز کے ساتھ ویج بورڈ ایوارڈ بھی اپنی افادیت کھو بیٹھا۔ ویج بورڈکے ذریعے مالکان کی طاقت کو ایک دائرہ کار میں لایا گیا تھا‘ لیکن اب یہ طاقت درحقیقت بڑھ گئی ہے کیوں کہ میڈیا ماکان کا وزارتِ اطلاعات میں اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔ صحافیوں کا آخری ویج بورڈ 2001ء میں تقسیم کیا گیا تھا۔ آٹھویں ویج بورڈ کو نافذ کرنے کی اجازت اگرچہ دے دی گئی تھی تاہم اخبار مالکان نے اس کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود وزارتِ اطلاعات نے ویج بورڈ نافذ کرنے کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر رانا عظیم نے کہا کہ حکومت اورپاکستان میں میڈیا کے بڑے اداروں کے مالکان کے درمیان گٹھ جوڑ کے باعث ویج بورڈ کے نفاذ میں تاخیر ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت چاہے تو 10منٹ میں آٹھواں ویج بورڈ نافذ کرسکتی ہے۔ 
انہوں نے مزید کہا:’’ ایک صحافی چوں کہ یہ اختیار نہیں رکھتا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کون سی خبر شایع ہوگی اور اس حوالے سے تمام تر اختیار مالک کو حاصل ہوتا ہے جس کے باعث حکومت فطری طور پر مالکان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔‘‘
سینئر صحافی امتیاز عالم نے کہا کہ حکومت میڈیا مالکان کی جانب سے صحافیوں کے استحصال کے حوالے سے مکمل طور پر آگاہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافی ہی اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔ وہ تمام صحافی، جنہیں تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جاتی، کام کرنا چھوڑ دیں اور غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال کر دیں۔ جب تک صحافی استحصال برداشت کرتے رہیں گے تو مالکان کو ان کی تنخواہیں روکے رکھنے کے حوالے سے ہلاشیری ملتی رہے گی۔
خیبر یونین آف جرنلسٹس (کے ایچ یو جے) کے صدر نثار محمود کہتے ہیں کہ پرنٹ میڈیا سے منسلک صحافی اب بھی اسی تنخواہ پر کام کررہے ہیں جو وہ 15برس قبل وصول کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پشاور میں ایک صحافی کو اوسطاً آٹھ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے جو حکومت کی جانب سے اجرت کے کم سے کم مقرر کیے گئے قانون کے مطابق نہیں ہے۔ کم تنخواہ وصول کرنے والے متاثرہ صحافی اردو صحافت سے منسلک ہیں۔ انگریزی روزناموں سے وابستہ صحافیوں کو نہ صرف ملازمت کا تحفظ حاصل ہے بلکہ ان کی تنخواہیں بھی نسبتاً بہتر ہیں۔
خیبر یونین آف جرنلسٹس اس حوالے سے نیوزپیپر ایمپلائز ٹربیونل میں مقدمات کی پیروی بھی کررہی ہے۔ نثار محمود نے کہاکہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور طویل سماعت کے باعث صحافیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے جب کہ اخبار مالکان خوش و خرم ہیں کہ ان کو مزید کچھ دن مل گئے ہیں۔
رانا عظیم اور امتیاز عالم نے حکومت پر الزام عاید کیا کہ انہوں نے اخبارات کے مالکان کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ وہ دونوں اس اَمر پر متفق تھے کہ اگر حکومت سرکاری اشتہارات کے واجبات اور صحافیوں کو بروقت تنخواہوں کی ادائیگی ایک دوسرے سے مشروط کر دے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
ملازمت کا تحفظ شعبۂ صحافت میں ایک اجنبی تصور ہے۔ مالکان کسی بھی صحافی کو جب چاہیں‘ ملازمت سے برخاست کرسکتے ہیں۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی عبدالرزاق خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو صحافی بھی ویج بورڈ کے نفاذ کے لیے آواز بلند کرتا ہے‘ وہ ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔ مالکان میں اس قدر برداشت بھی نہیں کہ وہ خود کو آئینہ دکھانے والوں کو برداشت کر سکیں۔
نثار محمود نے مزید کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد اب صوبے اس اَمر کے ذمہ دار ہیں کہ میڈیا کے متعلقہ اداروں کو منتظم کریں جس کے باعث یہ خیبرپختونخوا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافتی کمیونٹی کی فلاح کے لیے کام کرے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here