ڈیرہ اسماعیل خان: محمد شاہ محسود کو اسلام آباد کی جانب نصف سفرطے کرنے کے بعد واپس اپنے آبائی علاقے لوٹنا پڑا کیوں کہ پولیس نے انہیں اس بنا پرسفر جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ وہ محسود قبیلے اور جنوبی وزیرستان کے قبائلی خطے سے تعلق رکھتے ہیں جو دہشت گردی کے مرکز کے طورپر جانا جاتا ہے۔

چار بچوں کے والد اور جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے محمد شاہ محسود گزشتہ چھ ماہ سے اسلام آباد کی پھل و سبزی منڈی میں پھلوں کا کاروبارکررہے ہیں۔

فاٹا سے تعلق رکھنے والے بہت سے قبائلیوں نے پولیس کی جانب سے ہراساں کئے جانے کی شکایت کی ہے۔ ان میں سے کچھ کو ان کے پس منظر کے باعث ہوٹل کے کمروں کی بکنگ سے انکارکردیا گیا۔

پالیسی تجزیہ کار فوزیہ یزدانی کے تحقیقی مقالے بعنوان ’’جنوبی وزیرستان ایجنسی کے آئی ڈی پیز کے حوالے سے اَپ ڈیٹ‘‘ کے مطابق وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقے (فاٹا) افغانستان کے ساتھ سرحد سے متصل ہیں جن کا رقبہ27,220مربع کلومیٹر ہے۔

تحقیقی مقالہ کہتاہے کہ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع پہاڑی خطے جنوبی وزیرستان کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے اور اس کا رقبہ تقریباً11,585کلومیٹر ہے۔ برطانوی راج کے فوجی دستوںنے مقامی جنگجوئوں کے دہشت ناک تاثر اور ناہموار قطعۂ زمین کے باعث اسے ’’بابِ جہنم پر دستک‘‘ قرار دیا تھا۔ مقالہ مزید لکھتا ہے کہ یہ خطہ 1947ء میں پاکستان کا حصہ بنا۔

فاٹا ریسرچ سنٹر (ایف آر سی) کے ڈائریکٹر سیف اللہ محسود نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ یہ حقیقتاً تکلیف دہ ہے کہ ایک خاص قبیلے یا خطے سے تعلق رکھنے والا شخص ایک نازک وقت پر مسائل کا سامنا کررہا ہے جب قبائلی علاقے کے لوگوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں۔‘‘

2014ء میں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز(آئی ایس ایس)کی محققہ کرن فردوس کی جانب سے تحریر کی گئی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ دسمبر2007ء میں پاکستان کے 40عسکریت پسند کمانڈروں نے اپنی فورسز کو متحد کرنے کے لیئے ایک اجلاس کیا۔

انہوں نے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے مرحوم بیت اللہ محسود کے ساتھ مل کر تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بنائی جو اس کے سربراہ بنے۔

تاہم 2009ء میں ڈرون حملے میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک اور عسکریت پسند کمانڈر حکیم اللہ سربراہ بنے جو 2013ء میں ہونے والے ایک اور ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے۔

تحریکِ انصاف پاکستان فاٹا کی رہنما انیتا محسود کہتی ہیں کہ یہ صورتِ حال قبائلیوں ، خاص طورپر ان لوگوں کے لیئے پریشان کن ہے جو شمالی یا جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا:’’ وزیرستانی پس منظر کے حامل بہت سے خاندانوں کے لیئے اپنے پس منظر کے باعث بڑے شہروں میں کرایے پر گھر لینا تقریباً ناممکن ہے۔‘‘

لیکن جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر صالح شاہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بڑے شہروں میں محسود قبیلے یا کسی خاص خطے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہراساں کئے جانے کا مشاہدہ نہیں کیا۔

محمد شاہ محسود نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کو کاروبار کے سلسلے میں اسلام آباد جانے کے لیئے پولیس حکام کو دو بار رشوت دینا پڑی۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک اور قبائلی گل نواز نے کہا کہ وہ اپنے آبائی علاقے سے ایک مریض کو طبی معائنے کے لیئے اسلام آباد لائے۔ انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا:’’ میں اس وقت حیران رہ گیا جب مجھے اسلام آباد سے متصل شہر راولپنڈی کے تین ہوٹلوں نے کمرہ دینے سے انکار کردیا اور مجھے ایک قریبی مسجد میں رات گزارنا پڑی۔‘‘

سائوتھ ایشین ٹیررازم پورٹل کہتا ہے کہ ٹی ٹی پی، جو پاکستانی طالبان کے نام سے بھی معروف ہے، تمام مقامی عسکریت پسندگروہوں میں سب سے زیادہ تباہ کن ہے۔

آئی ایس ایس آئی کی رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستانی فوج کوقبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی کے ابھرنے کے باعث ایک لاکھ مستقل اور نیم عسکری اہلکار تعینات کرنا پڑے۔ سکیورٹی فورسز، شہریوں اور عسکریت پسندوں کو قبائلی پٹی میں کئی برسوں سے جاری شورش کے باعث بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔

رپورٹ کہتی ہے کہ سکیورٹی فورسز اورعسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی میں 2008ء میں آنے والی تیزی کے باعث محسود علاقوں کے تقریباً ساڑھے چار لاکھ رہائشی بے گھر ہوئے یا آئی ڈی پیز بنے۔

فاٹا ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ وزیرستان یا ایک خاص قبیلے کے لوگوں کے لیئے الگ پیمانہ مقرر کرنا مجرمانہ غفلت ہے۔انہوں نے مزید کہا:’’آپ جانتے ہیں، محسود قبیلے کی سول و ملٹری افسرِ شاہی میں اکثریت ہے اور قبائلی افرادی قوت کا ترسیلاتِ زر، خاص طور پر خلیجی ملکوں سے، ملک بھیجنے کے حوالے سے اہم کردار ہے۔‘‘

فاٹا ریسرچ سنٹر کی 2013ء کی ایک رپورٹ کے مطابق فاٹاکی آبادی 35لاکھ ہے اور یہ عدم استحکام سے سب سے زیادہ متاثرہونے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔

فاٹا ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ چند لوگوں کی سرگرمیوں کے باعث ایک خاص قبیلے اور خطے کو ہدف نہیں بنانا چاہئے۔

اسلام آباد میں ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ شمالی یا جنوبی وزیرستان کے قبائلی علاقوں کے لوگوں کے حوالے سے غلط تاثر تخلیق کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا:’’ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ چند لوگوں کے علاوہ شمالی و جنوبی وزیرستان کے لوگ قانون کا احترام کرتے ہیںاور ہم نے پولیس کو ہدایات جاری کی ہیں کہ انہیں ہراساں نہ کیا جائے۔‘‘

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر پولیس افسر رحمت خان نے کہا کہ انہوں نے عمومی طورپر فاٹا اور بالخصوص وزیرستان کے لوگوں کے بارے میں مشاہدہ کیا ہے کہ انہیں متعدد چیک پوسٹوں پر ہراساں کیا جاتا ہے۔

انہوںنے مزید کہا:’’حکومت کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروںکوقبائلی عوام کو ہراساں کرنے سے روکنے کے لیئے فیصلہ کن مہم شروع کی جانی چاہئے کیونکہ انہوں نے پہلے ہی بہت زیادہ مشکلات برداشت کی ہیں۔‘‘

جب یہ استفسار کیا گیا کہ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں تو فاٹا ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر نے کہا:’’قبائلی پٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کو دہشت گردی کے بیانیے کو رد کرنے اور یہ شعور پیدا کرنے کہ فاٹا کے عوام نے قوم اور ملک کے لیئے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں، قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here