لاہور (دردانہ نجم) لاہور کے گنجان آباد علاقوں اور کچی آبادی کے رہائشی ریاست کی جانب سے فراہم کیا جارہا سیوریج ملا آلودہ پانی پینے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔

بہار کالونی کے ساتھ بہتے ہوئے نالے کے ساتھ ہی لاہور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی علامت ارفع ٹیکنالوجی پارک واقع ہے۔

بہار کالونی کے رہائشی اکثر و بیش تر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں؟پوش آبادیوںجیسا کہ ماڈل ٹائون ان کی آبادی یا پھر ان کے تعفن زدہ اور نظرانداز کیے گئے علاقے بہار کالونی سے متصل ہے جہاں وہ آلودہ پانی پینے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔

لاہور واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی (واسا) کی جانب سے صاف پانی کے حوالے سے جاری کی گئی سالانہ رپورٹ برائے 2014ء کے مطابق لاہور میں تقریباً10لاکھ افراد آلودہ پانی پیتے ہیں۔

واسا کی جانب سے 2015ء میں لاہور کو سپلائی کیے جارہے پانی کا تجزیہ کیا گیا تو اس میںزہر آلود مادے اور بکٹیریا شامل تھا۔

واسا 517ٹیوب ویلوں کے ذریعے لاہور شہر کی 60لاکھ آبادی کو پانی فراہم کرتا ہے، یہ ٹیوب ویل 150سے 200میٹر گہرائی سے پانی کھینچتے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے رکنِ صوبائی اسمبلی ڈاکٹر مراد راس کہتے ہیں کہ بہار کالونی ایسا واحد علاقہ نہیں ہے جہاں آلودہ پانی نے غریب پاکستانیوں کی زندگی کے لیے خطرات کھڑے کیے ہیں۔مکہ کالونی، اتحاد کالونی، اے ون کالونی اور قربان لائنز جب کہ اچھرہ، مغل پورہ اور تاج پورہ کے کچھ علاقے، بادامی باغ، اور وسن پورہ اس طویل فہرست میں شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا:’’مذکورہ علاقوں کے رہائشی 40سے 50سال قبل بچھائے گئے پانی اور سیوریج کے پائپوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ سیوریج پائپ صرف چند ہزار خاندانوں کی ضرورت ہی پورا کرسکتے تھے۔ آبادی بڑھنے کے باعث ان پر انحصار غیر معمولی طور پر بڑھا ہے جس کے باعث سیوریج پائپوں سے لیکیج ہونے کے باعث پینے کے پانی میں سیوریج کا پانی شامل ہوجاتا ہے کیوں کہ پانی اور سیوریج کے پائپ ساتھ ساتھ ہیں۔‘‘

ڈاکٹر مراد راس نے کہا کہ ان علاقوں میں آلودہ پانی پینے کے باعث لوگوں میں ہیپاٹائٹس سی اور گیسٹرو کی بیماریاں عام ہیں۔

انہوں نے حکومت کی ترجیحات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے 2013ء میں رُکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد ایم ڈی واسا سے ملاقات کا احوال بیان کیا، ڈاکٹر مراد راس نے کہا:’’ مجھ سے کہا گیا کہ میرے حلقے پی پی 152میں سیوریج کے نئے پائپ بچھانے کے لیے تقریباً چار ارب روپے درکار ہوں گے۔‘‘ ان کا مزید کہناتھا کہ موجودہ حکومت نے جیل روڈ پر سگنل فری کاریڈور کے منصوبے پر توآٹھ سے 10ارب روپے لگا دیے لیکن ان کے پاس آلودہ پانی پینے کے باعث مشکلات کا شکار عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوئی فنڈز نہیں ہیں۔

نیوز لینز پاکستان نے اس صورتِ حال کے بارے میں گہرائی سے جاننے کے لیے بہار کالونی کے کچھ رہائشیوں سے بات کی۔

پاکستان سوسائٹی برائے بحالیٔ معذوراں سے منسلک سٹاف نرس فرزانہ عادل نے کہا کہ عموماًنلکوں سے زرد یا سیاہی مائل پانی رستا رہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ سہ پہر چار بجے یا پھر رات 11بجے نسبتاً صاف پانی آتا ہے جب کہ نلکوں سے دن بھر گندا اور بدبودار پانی ہی رستا رہتا ہے۔‘‘

a mixture of sewer and potable water, being supplied by the state
a mixture of sewer and potable water, being supplied by the state: Photo by News Lens Pakistan/

نیوز لینز پاکستان نے لاہور لیڈز یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم طالب علم دانش جیمز کو ایک مقامی فلٹریشن پلانٹ پر دیکھا جہاں وہ 20لیٹر فلٹرڈ پانی 40روپے میں خریدنے آئے ہوئے تھا۔

انہوں نے کہا:’’ گھروں میں جو پانی آتا ہے ، پینے یا کھانا پکانے کے لیے مضر ہے۔ اکثر و بیش تر اس قدر کم پانی آتا ہے کہ ہم بہ مشکل نہا پاتے ہیں۔ ہمارا خاندان پانچ ارکان پر مشتمل ہے اور ہم روزانہ 40لیٹر پانی استعمال کرتے ہیں۔ وہ پانی جو میں مقامی فلٹریشن پلانٹ سے خریدتا ہوں، کھانا یا چائے بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ہم پینے کے لیے مقامی بیکری سے برانڈڈ پانی خریدتے ہیں۔‘‘

بہت سے گھروں میں میزائل واٹر پمپ نصب کیے جاچکے ہیں( یہ میزائل پمپ اس لیے کہلاتا ہے کیوں کہ اس کی شکل میزائل جیسی ہوتی ہے)۔ مسز جوئز کے مطابق زیرِ زمین پانی کی سطح کم ہونے کے باعث یہ دو سو فٹ گہرائی سے پانی کھینچتا ہے۔ ایک پمپ نصب کرنے پر 60ہزار روپے لاگت آتی ہے۔ مسز جوئز کہتی ہیں:’’ ہم نے جب سے میزائل پمپ نصب کیا ہے، گھر پہ پانی کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔‘‘

ایک غیر سرکاری تنظیم طالیثا قوم ویلفیئر سوسائٹی سے منسلک کارکن سارہ قادر بخش نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اکثر و بیش تر پانی آتا ہی نہیں۔ انہوں نے کہا:’’ مثال کے طور پر 25مارچ سے 17اپریل تک میرے گھر پہ ایک قطرہ پانی نہیں آیا۔ بعدازاں واسا کے حکام نے مجھ سے نیا کنکشن لگوانے کے لیے کہا جس کے لیے میں نے 18ہزار روپے ادا کیے۔ ‘‘

پاکستان تحریکِ انصاف کی مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والی رُکنِ پنجاب اسمبلی شنیلا رُتھ نے نیوز لینز پاکستان سے پنجاب اسمبلی میں ان کے حلقے این ایم 371میں غیر آلودہ پانی کے حوالے سے ہونے والی بحث سے آگاہ کیا جس میں بہار کالونی کا علاقہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس حوالے سے اب تک کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔

ایک رپورٹ بعنوان ’’ پاکستان کے شہری علاقوں میں پینے کے صاف پانی کا تجزیہ‘‘ کے مطابق آلودہ پانی کی وجوہات میں پانی کے پرانے اور خستہ حال پائپ، پانی کے پائپوں کا سیوریج لائن کے قریب ، ان کا ٹوٹا ہونا یا پھر سیوریج لائن پر دبائو ہونا شامل ہے۔

"Saaf Paani" project by Govt
“Saaf Paani” project by Govt. :Photo by News Lens Pakistan/

حکومتِ پنجاب نے دیہی علاقوں میں پینے کے لیے محفوظ پانی فراہم کرنے کے لیے ’’صاف پانی‘‘ کے نام سے منصوبہ شروع کیا ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لاہور کی 280یونین کونسلوں میں اب تک 200فلٹرز نصب کیے جاچکے ہیں۔

پنجاب کے مالی بجٹ برائے 2016-17ء میں اس منصوبے کے لیے 30ارب روپے مختص کیے گئے۔ حکومت یہ سارا بجٹ رواں مالی سال میں خرچ کرنا چاہتی ہے جب کہ دوسری صورت میں 11ارب روپے رواں برس اور باقی دو مراحل میں خرچ کیے جائیں گے۔

مالی سال 2015-16ء میں ’’صاف پانی منصوبے‘‘ کے لیے 11ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ ڈاکٹر مراد راس کے مطابق اس منصوبے پر صرف چار ارب روپے ہی خرچ ہوئے جب کہ باقی میٹرو بس منصوبے پر لگا دیے گئے۔

ڈاکٹر مراد راس صاف پانی منصوبے کے حوالے سے ایک اور اہم مسئلے کی جانب توجہ دلاتے ہیں جو فلٹریشن پلانٹس کی مرمت سے متعلق ہے کیوں کہ ان میں سے بیش تر پلانٹس درست طور پر کام نہیں کررہے۔ واسا نے پانی کا معیار مستقل بنیادوں پر جاننے کے لیے کوئی مانیٹرنگ پروگرام شروع نہیں کیا۔
واسا کے منیجنگ ڈائریکٹر چودھری نصیر احمد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہارکالونی اور دیگر علاقوں میں صورتِ حال تشویش ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے لاہور کے صرف ایک حلقے میں سیوریج کے پائپ تبدیل کرنے کے لیے 50کروڑ روپے مختص کیے تھے۔

انہوں نے مزید کہا:’’ آپ گندے پانی کے بارے میں بات کررہے ہیں، لوگوں کو سرے سے پانی ہی نہیں مل رہا۔ سب سے اہم تو یہ ہے کہ لوگوں نے واٹر پمپ نصب کررکھے ہیں جو کہیں سے بھی، حتیٰ کہ سیوریج کے پائپوں سے بھی پانی کھینچ لیتے ہیں۔‘‘

واسا کے ایم ڈی کے مطابق لاہور میں اس وقت 517ٹیوب ویل ہیں اور ان میں سے بیش تر درست طور پر کام نہیں کررہے۔ڈاکٹر نصیر احمد نے کہا کہ منصوبے کے مطابق جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی کی فنڈنگ سے 105جب کہ حکومتِ پنجاب کی فنڈنگ سے 45ٹیوب ویل تبدیل کیے جائیں گے۔

انہوں نے آگاہ کیا کہ حکومت نے مختلف علاقوں میں اب تک 43نئے ٹیوب ویل نصب کیے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here