کوئٹہ (محمد عمر سے) ولی خان مری عرف کلاٹی نے کالعدم بلوچ لبریشن آرمی میں 1973ء میں شمولیت اختیار کی جب وہ محض 20برس کے تھے‘ ان کا تعلق مری قبیلے سے ہے جو بلوچستان کے کوہلو ضلع میں آباد ہے۔ وہ تقریباً چار دہائیوںتک پہاڑوںمیں ایک فراری کے طور پر جیون گزارتے رہے اور مسلح جدوجہد کرتے رہے جسے وہ ’’بلوچ عوام کے یکساں حقوق‘‘ کی جنگ قرار دیتے ہیں۔
چارجون 2015ء کو 60برس کے کلاٹی نے قومی دھارے میں واپس آنے کے لیے مسلح جدوجہد کو خیرباد کہہ ڈالا۔ 12بچوں کے باپ کلاٹی نے کوئٹہ سے فون پر نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں نے 1973ء کے اوائل میں اس وقت ہتھیار اٹھائے تھے جب نواب خیر بخش مری نے ریاست کے خلاف احتجاجاًکابل، افغانستان میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘‘
اس نے مزید کہا:’ ’ ہم سے ریاست کے خلاف لڑنے کے لیے کہا گیا کیوں کہ بلوچوں کو حقوق سے محروم رکھا جا رہا تھا۔ ‘‘ کلاٹی نے مزید کہاکہ وہ جب پہلی بار بلوچ جنگجو گروہ کا حصہ بنا تو پڑھ یا لکھ نہیں سکتا تھا۔اس کا کہنا تھا:’’ میں ناخواندہ تھا اور صرف بلوچی زبان میں ابلاغ کرسکتا تھا لیکن یہ ضرور جانتا تھا کہ لڑا کس طرح جاتا ہے۔‘‘
اس نے کہا کہ وہ بلوچ لبریشن آرمی میں بطور کمانڈر خدمات انجام دیتا رہا، بعدازاں اس سے الگ ہونے والے ایک اور دھڑے یونائنڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) میں شمولیت اختیار کرلی۔ بلوچ لبریشن آرمی میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے جس سے تنظیم میں رسہ کشی شروع ہوگئی۔کلاٹی کا کہنا تھا:’’ میں بلوچستان بھر میں تین تربیتی کیمپوں کی نگرانی کیا کرتا۔ یو بی اے نے اپنی طرزِ سیاست تبدیل کی اور عام شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کیا، ہم شروع سے ہی اس حکمتِ عملی کے خلاف تھے۔ میں نے ان حملوں کی مذمت کی اورکمانڈرز کو خبردار کیا کہ اس نوعیت کی ظالمانہ کارروائیوں کے باعث ہم تنظیم چھوڑ دیں گے۔‘‘
مستونگ میں جب قتلِ عام ہوا اور 23افراد کو ہلاک کر دیا گیا جن میں اکثریت بلوچستان کے ضلع پشین سے تعلق رکھنے والے پشتون محنت کشوں کی تھی‘ کلاٹی نے دہشت گردی کی اس کارروائی کے بعدیوبی اے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ نو مئی 2015ء کو مسلح افراد نے کراچی سے مستونگ جانے والی دو بسوں کو روکا ، مسافروں کو باہر نکالا، ان کی شناخت کی اور پہاڑوں پر لے جاکر بے دردی سے قتل کر ڈالا۔
کلاٹی نے مزید کہا:’’ میَں نے جب یو بی اے سے علیحدگی اختیار کی تو س کے جنگجوئوں نے میرے تربیتی کیمپوں پر حملہ کیا اور سات برس کے بیٹے کو اغوا کرلیا۔یو بی اے کی جانب سے میرے خاندان کے ارکان کو ڈرایا دھمکایا گیا کہ اگر میں نے علیحدگی پسند تحریک چھوڑی تو ان کو قتل کر دیا جائے گا۔‘‘
بلوچ علیحدگی پسندوںسمیت قانون پر عمل کرنے والے عام شہری بھی یہ تصور کرتے ہیں کہ ممکن ہے بلوچ عسکریت پسند برسوں کے تنازع کے بعد سرنڈر کرنے کے لیے پہاڑوں سے واپس آرہے ہوں لیکن شدت پسندعناصر کہتے ہیں:’’ یہ صرف ایک ڈرامہ ہے جو حکومت نواز سرداروں کی جانب سے رچایا جارہا ہے۔‘‘
جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے محکمۂ داخلہ کے مطابق 447بلوچ علیحدگی پسندوں نے سرنڈر کیا ہے اور ’’پاکستانی قانون پر عمل کرتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا عہد‘‘ کیا ہے۔
صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے نیوز لینز پاکستان سے ایک انٹرویو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی فورسز سے لڑنے والے 447فراریوں نے جنگ بندی کرتے ہوئے سرنڈر کیا ہے اور ہتھیار ڈالے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں 615عسکریت پسندوں کے سرنڈر کرنے کا امکان ہے۔
اکبر حسین درانی کے مطابق فراریوں نے اس وقت سرنڈر کیا جب حکومت کی جانب سے پرامن بلوچ پیکیج کا اعلان کیا گیا تاکہ ان کو حکومت کے ساتھ امن قائم کرنے پر آمادہ کیا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ صوبائی حکومت نے مسلح بغاوت چھوڑ کر امن قائم کرنے پر آمادہ کمانڈرز کو 15لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے ۔ مرکزی دھارے میں واپس آنے کے خواہاں عسکریت پسندکمانڈرزکے لیے 10لاکھ روپے اورجنگجوئوں کے لیے پانچ لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔‘‘
میڈیا میں آنے والی حالیہ رپورٹس سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ شدت پسند بلوچ کمانڈرز بھی بلوچستان حکومت کی تحریک پر ممکنہ طور پر مسلح بغاوت سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے واپس آسکتے ہیں جن میں علیحدگی پسند رہنما براہمداغ بگٹی بھی شامل ہیں جو ان دنوں سوئٹزر لینڈ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ وہ پاکستان واپسی کے لیے حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات کررہے ہیں۔
انہوں نے معافی نامے کے پیکیج پر بات کرتے ہوئے کہا کہ محکمۂ داخلہ نے سابق جنگجوئوں کی طبی، تعلیمی اور دیگر سہولیات تک رسائی ممکن بنانے کے لیے پرامن بلوچستان پیکیج کارڈ ز جاری کیے ہیں۔
اکتوبر 2015ء میں مری قبیلے کے سردار اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے رہنما نواب چنگیز خان مری نے مری ہائوس میں ایک تقریب میں دو کمانڈرز میر جان مری اور میر رمضان مری کے اپنے 23ساتھیوں سمیت سرنڈر کرنے پر ان کو خوش آمدید کہا ‘ اس تقریب میں ان عسکریت پسندوں نے اپنے ہتھیار مری قبیلے کے سربراہ کے حوالے کیے۔
مرحوم قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کے صاحب زادے نواب چنگیز مری نے کہا کہ بہت ساری کوششوں اور رابطوں کے بعد بلوچستان حکومت کلاٹی اور ان کے ساتھیوں کو ہتھیار پھینکنے اور واپس لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
نواب چنگیز مری، جو سینئر صوبائی وزیر بھی ہیں، نے کہا:’’ میں نے کئی برس اپنے والد کے ساتھ کابل میں گزارے ہیں، مجھ پر یہ ادراک ہوا کہ بلوچستان کے عوام اور خاص طور پر مری قبیلے کے لیے اس تباہ کن اثرات کی حامل جنگ کا کوئی اَنت نہیں ہے۔‘‘
چنگیز مری نے اپنے والد اور بھائیوں سے راستے الگ کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے مرحوم والد اور بھائیوں کو اس لیے چھوڑا کیوں کہ وہ عسکریت پسندی جاری رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ عسکریت پسندی کے جاری رہنے سے صرف بلوچستان کا ہی نہیں بلکہ مری قبیلے کے عوام کا نقصان بھی ہوگا۔‘‘
ان سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ کیا انہوں نے اثر و رسوخ کے حامل بلوچ علیحدگی پسند رہنمائوں جیسا کہ حیربیار مری ، جو مبینہ طور پر بی ایل اے کے سربراہ ہیں، اور براہمداغ بگٹی سے رابطہ قائم کیا ہے؟ چنگیز مری نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (نواز)، جو بلوچستان میں سب سے بڑی منتخب سیاسی جماعت ہے، کی مرکزی قیادت نے ان سے ان دونوں بلوچ رہنمائوں سے رابطہ کرنے کے لیے نہیں کہا جو اس وقت لندن اور سوئٹزرلینڈ میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
چنگیز مری نے کہا:’’ مجھے جب بھی میرے بھائی (حیربیار مری) اور دیگر رہنمائوں سے رابطہ کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے گی تو میں بلوچستان کے عوام کے قبائلی سربراہ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کروں گا۔ یہ مری قبیلے کے سردار کی حیثیت سے میری ذمہ داری ہے کہ میں مری جنگجوئوں کو مسلح بغاوت ختم کرنے کے لیے آمادہ کروں۔‘‘
 صوبائی حکومت نے پُرامن بلوچستان پیکیج اوربلوچ جنگجوئوں کے عسکریت پسندی چھوڑنے کے حوالے سے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے چار کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔ایک کمیٹی کے سربراہ وزیراعلیٰ خود ہیں، دوسری بنیادی کمیٹی وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہے، ایک تیسری مانیٹرنگ کمیٹی میں کمشنر کوئٹہ کے علاوہ فرنٹیئر کور، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندے شامل ہیں جب کہ چوتھی عملدرآمد کمیٹی میں ضلعی پولیس افسرکے علاوہ ایف سی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نمائندگی بھی ہے۔
صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے کہا:’’ ہم مختلف اضلاع میں جنگجوئوں کے عزت و احترام کے ساتھ سرنڈر کرنے میں ان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔پانچ سے سات اضلاع میں، جو عسکریت پسندی سے بدترین طور پر متاثر ہیں، جنگجوئوں نے سرنڈر کیا ہے۔‘‘
جون 2015ء میں بلوچستان حکومت نے فوجی قیادت کے ساتھ ایک معاہدے کی رو سے فراری کمانڈرز کے لیے امن پر مبنی ایک پیکیج کا اعلان کیا تھا جسے صوبائی کابینہ کے علاوہ جولائی میں وزیراعظم نواز شریف کے دورۂ کوئٹہ کے دوران قبول کیا گیا تھا۔
صوبائی حکومت کے ایک افسرنے ، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ پیکیج کا بنیادی مقصد توعلیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں واپس لانا ہے لیکن اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عسکریت پسندوں کی جلاوطن بلوچ رہنمائوں اور بلوچستان میں شورش پیدا کرنے کی خواہاں خفیہ ایجنسیوں سے فنڈز کے حصول کے حوالے سے حوصلہ شکنی ہو۔
مذکورہ افسر نے کہا:’’ صوبائی حکومت مالی مدد کے علاوہ سرنڈر کرنے والے جنگجوئوں کے بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کرے گی۔ پیکیج میں رقم کا ایک حصہ ان لوگوں کے وارثان کے لیے بھی مخصوص کیا گیا ہے جو مارے جاچکے ہیں کیوں کہ انہوں نے عسکریت پسندی کو خیر باد کہہ دیا تھا۔‘‘
ولی خان مری عرف کٹالی سے جب بلوچ عسکریت پسندوں کو حاصل ہونے والی بیرونی امداد کے بارے میں استفسار کیا گیا تو اس نے کہا کہ بی ایل اے اور یو بی اے کو بیرونی ممالک کی جانب سے فنڈنگ حاصل ہوتی ہے جس کے عوض ان پر شہری آبادی کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری عاید کی جاتی ہے۔
اس نے مزید کہا:’’یہ جنگ بلوچستان پر حکمرانی کرنے کے لیے نوابوں اور سرداروں کے درمیان جاری ہے اور اس کا بلوچ عوام اور ان کے حقوق کی جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں۔میں اپنے لوگوں کے خلاف ہتھیار نہ اٹھانے کا فیصلہ کرچکا ہوں۔ اس جنگ سے بلوچستان کے عوام اور خاص طور پر مری قبیلے کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے ۔ہمارے بچے تعلیم سے محروم رہ گئے ہیں جب کہ ان کوبلوچ عسکریت پسندتحریک میں شامل ہونے کے لیے ورغلایا جاتارہا ہے۔‘‘
کلاٹی نے مزید کہا کہ اس نے اپنی پوری زندگی ایک غلط مقصد کی خاطر پہاڑوں پر جنگ کرتے ہوئے گزار دی ہے۔اس کا کہنا تھا:’’ میں اب اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے قابل بھی نہیں رہا لیکن ان کو بنیادی سہولیات جیسا کہ تعلیم و صحت فراہم کرنا چاہتا ہوں تاکہ ایک بہتر مستقبل ان کا منتظر ہو۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here